ملک کیخلاف سرگرمیوں پر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) ایکٹ اور آرڈیننس کیس سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقا کا سوال ہے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے ‏متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ حراستی مراکز کیوں قائم کیے گئے عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ملک 2 دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وہی ویڈیو ہے جو 2015 میں بھی عدالت کو دکھائی گئی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں وہ حراستی مراکز کی ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس:'یہ ‏موجودہ دور کا سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے'

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ 21 ویں ترمیم کے بعد اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ نے 21 ویں ترمیم جلدی بازی میں منظور کی، فاٹا اور پاٹا میں دہشت گرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے۔

اس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا کالعدم تنظیموں کے ساتھ حراستی مراکز بھی موجود تھے ؟ کیا 2008 سے آج تک حراستی مراکز کی قانونی حیثیت چیلنج ہوئی؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز کی قانونی حیثیت سے متعلق یہ پہلا کیس ہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے اور 3 سے 4 ماہ میں نیا قانون بن کر نافذ ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں عدالت 4 ماہ آئین معطل کر دے؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں۔

جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ 25 ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ دینا ضروری تھا اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دہشت گردی کے وجہ سے صوبے کے عوام متاثر ہو رہے تھے، عوام کے تحفظ اور امن و امان کی بحالی کیلئے فوج طلب کی گئی تھی۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے 1960 کا قانون موجود ہے، اس کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وفاق صوبے کے لیے قانون سازی کر سکتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اِنکم ٹیکس سمیت کئی وفاقی قوانین صوبوں میں رائج ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس وقت خیبرپختونخوا میں بحالی امن کے لیے کون سا قانون نافذ ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اس وقت 2011 کا ایکٹ نافذ ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2011 کا قانون وفاقی ہے جو صدر نے نافذ کیا تھا۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ صدر نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا جو اب ختم ہوچکا، فاٹا ختم ہو چکا تو اس میں رائج قانون کیسے برقرار ہے؟

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فاٹا میں رائج قانون اب صوبائی قوانین بن چکے، جو نیا قانون ڈرافٹ کر رہا ہوں اس میں سب کچھ شامل کیا گیا ہے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہوگیا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانے کے لیے وزارت قانون موجود ہے، قانون جب بن کر عدالت کے سامنے آئے گا تب دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حراستی مراکز میں کسی کو 3 ماہ تک رکھا جاسکتا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے خلاف سرگرمیوں پر غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو کسی کوبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نقطہ نکال دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا صوبائی اسمبلی قانون بنا کر وفاقی قانون کو ختم کر سکتی ہے؟ عدالت نے آئین کے مطابق چلنا ہے، اگر 2011 کا قانون موجود ہے تو بات صرف حراست کا جائزے لینے کی رہ جاتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ حراستی مراکز میں کتنے لوگ زیر حراست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حراستی مراکز میں اس وقت ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں، کئی افراد آبادکاری اور ذہنی بحالی کے بعد رہا ہو چکے اور کئی کو جرم ثابت نہ ہونے پر بھی رہا کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقا کا سوال ہے، 2011 کے قانون میں سقم حراست پر نظرثانی نہ ہونا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ نے ہمیں کوئی ویڈیو دکھانی تھی، ویڈیو کس حوالے سے ہے، 21 ویں ترمیم کے مقدمات میں سانحہ اے پی ایس کی ویڈیو دکھائی گئی تھی اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں وہ حراستی مراکز کی ہے۔

بعدازاں عدالت نے فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس سے ‏متعلق کیس کی سماعت کل (منگل) تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے'

چیف جسٹس نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔

17 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔

20نومبر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے۔

آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو فاٹا اور پاٹا میں امن اور حکومت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔

2011 میں صدر مملکت نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا، ان قوانین میں واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کی وجہ سے قانون کی ضرورت بڑھ گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں