عدم ادائیگی پر پاور کمپنیوں کو نادہندگی کا خطرہ

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
بریگیڈیئر (ر) محمد زرین نے کہا کہ چینی ٹھیکیدار نے ایک موقع پر اس منصوبے کو چھوڑ دیا تھا —فائل فوٹو: ٹوئٹر
بریگیڈیئر (ر) محمد زرین نے کہا کہ چینی ٹھیکیدار نے ایک موقع پر اس منصوبے کو چھوڑ دیا تھا —فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے پینل کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر 969 میگاواٹ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی (این جے ایچ پی سی)، واپڈا اور حکومت پاکستان نے ایک ماہ کے اندر متعلقہ فرم کو توانائی کی مد میں ادائیگی شروع نہیں کی تو ادارے نادہندگان کہلائیں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں پینل کو مزید بتایا کہ شعبہ توانائی لائن لاسز میں کمی ظاہر کرکے ’بے حساب یونٹ‘ استعمال کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: بجلی بنانے والی کمپنیوں کو زائد رقم دینے کا معاملہ: چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لےلیا

نیلم جہلم ہائیڈروو پاور پروجیکٹ کے سی ای او بریگیڈیئر (ر) محمد زرین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کو بتایا کہ ’اگر سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) کی آمدنی دسمبر 2019 تک شروع نہیں ہوتی تو این جے ایچ پی سی، واپڈا اور حکومت پاکستان ناہندگان ہوجائیں گے کیونکہ متعلقہ فریقین متعدد مرتبہ ادائیگی کی گارنٹی دینے کے بعد بھی ناکام رہے علاوہ ازیں این جے ایچ پی سی روز مرہ کے مینٹیننس کی مد میں بھی اخراجات پورے کرنے میں ناکام رہی‘۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت رکن قومی اسمبلی جنید اکبر نے کی۔

بریگیڈیئر (ر) محمد زرین نے کہا کہ چینی ٹھیکیدار نے ایک موقع پر اس منصوبے کو چھوڑ دیا تھا، جب منصوبہ 99.6 فیصد تکمیل ہوچکا تھا اور کچھ معمولی کام باقی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 30 جولائی اور 19 اکتوبر 20 کو ڈیم سائٹ پر بھارتی فوج کی گولہ باری کے بعد ٹھیکیدار تعمیرات کے مقام پر واپس آنے کو تیار نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ایران نے پاکستان کو بجلی کی فراہمی بند کردی‘

محمد زرین کا کہنا تھا کہ این جے ایچ پی سی نے وزارت خارجہ کے ذریعے تبادلہ خیال کیا تھا کہ جس نے یہ معاملہ بیجنگ کے ساتھ اٹھایا اور امید تھی کہ عملہ معاہدے کے تحت اپنی ملازمت دوبارہ شروع کردے گا۔

بریگیڈیئر (ر) محمد زرین نے کہا کہ کمپنی کی سالانہ ڈیٹ سروسنگ کی مد میں قرضہ 50 ارب روپے ہے اور اسے اکنامک افیئرس ڈویژن (ای اے ڈی) کی جانب سے باقاعدہ خطوط مل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس دسمبر کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مقامی بینکوں سے اٹھائے گئے 100 ارب ڈالر قرض، تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: بجلی چوروں کے خلاف 18 ہزار مقدمات درج، 1300 افراد گرفتار

انہوں نے کہا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ایک سال کے لیے 5.9180 روپے فی کلو واٹ کے حساب سے عبوری ٹیرف دیا تھا اور 8 مارچ 2019 کو مطلع کیا گیا لیکن این جے ایچ پی سی کو ابھی تک سی پی پی اے کے ذریعے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا گیا جبکہ اس نے قومی گرڈ کو 6 ارب یونٹ (کلو واٹ) سے زیادہ کی بجلی فراہم کی۔

محمد زرین کے مطابق سرکاری سطح پر چلنے والا سی پی پی اے رواں سال جولائی سے بجلی کی خریداری کے معاہدے (پی پی اے) پر دستخط نہیں کر رہا تھا۔

محمد زرین کے مطابق سرکاری ادارے سی پی پی اے رواں سال جولائی سے بجلی کی خریداری کے معاہدے (پی پی اے) پر دستخط نہیں کر رہا۔

انہوں نے بتایا کہ سی پی پی اے-جی اور این جے ایچ پی سی کے مابین پی پی اے جون 2019 میں سی پی پی اے کے قانونی حصے کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خسارے سے نمٹنے کیلئے بجلی چوروں اور نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے سی پی پی اے پاور پرچیزنگ ایگریمنٹ (پی پی اے) معاہدہ نہیں کررہا، این جے ایچ پی سی کے مابین پی پی اے جون 2019 میں سی پی پی اے کے قانونی حصے کے ذریعے تیار کیا گیا، جولائی 2019 میں فراہم کردہ توانائی کی ادائیگی کی انوائس کی منظوری کے لیے سی پی پی اے کو پیش کیا گیا لیکن اس کی منظوری نہیں دی جارہی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ نتیجے کے طور پر این جے ایچ پی سی کو آج تک فراہم کردہ توانائی کی مد میں ادائیگی نہیں کی گئی۔

محمد زرین نے کہا کہ نیپرا نے اگست 2019 میں این جے ایچ پی سی کی درخواست پر عبوری ٹیرف میں 9.1184 روپے فی یونٹ ترمیم بھی کی تھی لیکن اسے بھی مطلع نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ فی الحال آخری ٹیرف کی درخواست پر کارروائی جاری ہے۔

مزید پڑھیں: کے الیکڑک،گیس کمپنی کے درمیان تنازع سے صنعتی سرگرمیاں شدید متاثر

محمد زرین نے کمیٹی کو بتایا کہ نیلم جہلم منصوبے کے ذریعے بجلی کے شعبے کو فراہم کی جانے والی 6 ارب یونٹ بجلی کو بے حساب رکھا جارہا ہے اور اسے لائن لاسز میں کمی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

کمیٹی نے وزیر بجلی عمر ایوب خان کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ایک سوال کے جواب میں محمد زرین نے کہا کہ این جے ایچ پی سی ٹیرف کو واپڈا کے ساتھ جمع کرنا نہ صرف غیر عملی تھا بلکہ اس میں سنگین قانونی اور ٹیکس عائد کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ واپڈا کے برعکس کمپنی کو ٹیکس میں چھوٹ تھی جبکہ آزاد جموں و کشمیر سے بجلی کی برآمد سے متعلق قانونی معاملات بھی تھے۔

محمد زرین نے کہا کہ واپڈا نے پہلے ہی سی پی پی اے کے ساتھ 200 بلین روپے سے زائد ادائیگیوں کا ذخیرہ کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بچنے کیلئے 93 ارب روپے کا منصوبہ منظور

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ امور کی وجہ سے آزاد جموں کشمیر کو فی یونٹ 1.10 روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

قانون سازوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے بجٹ کے تخمینے پر عملدرآمد کے تنازع سے متاثر ہورہے ہیں۔

صارفین سے وصول کیے جانے والی نیلم جہلم سرچارج سے متعلق ایک سوال کے جواب میں محمد زرین نے کہا کہ اب تک تقریبا 60 ارب روپے وصول کیے جاچکے ہیں اور وہ کمپنی استعمال کررہی ہے لیکن سی پی پی اے کو فروخت کی گئی توانائی کے حساب سے 60 ارب ڈالر کی ادائیگی باقی نہیں رہی۔

تبصرے (0) بند ہیں