ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی انٹرویو کرے گی

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2019
عدالتی کمیشن ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں خالی عہدوں پر تعیناتی کے لیے ججز کو نامزد کرتا ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
عدالتی کمیشن ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں خالی عہدوں پر تعیناتی کے لیے ججز کو نامزد کرتا ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی برائے تعیناتی ججز نے اسلام آباد اور صوبائی ہائیکورٹس میں عدالتی عہدوں پر امیدواروں کی درخواستیں وصول کر نے کے لیے اپنے قواعد میں ترمیم کردی۔

اس سے قبل مذکورہ پارلیمانی کمیٹی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دیے گئے ایک فیصلے کی روشنی میں محض ایک ربر اسٹمپ بن گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے کمیٹی کے دائرہ اختیار کے حوالے سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر کمیٹی عدالتی کمیشن پاکستان (جے سی پی) کے تجویز کردہ ناموں پر 14 روز کے اندر غور نہیں کرے گی تو وہ منظور شدہ تسلیم ہوں گے۔

علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس نے جے سی پی کے مجوزہ ناموں کو مسترد کرنا بھی کمیٹی کے لیے مشکل بنا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کا امکان

تاہم اب قواعد میں ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں جج کی نامزدگی منسوخ تصور کی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خالی نشست کو پُر کرنے کے لیے جے سی پی کے تجویز کردہ 3 امیدواروں کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کرلیا، اس سلسلے میں کمیٹی کا اگلا اجلاس 4 دسمبر کو ہوگا۔

اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے عہدوں کے لیے وکلا کے ناموں پر غور کرنے کے علاوہ کمیٹی آئندہ 6 ماہ تک اجلاسوں کی سربراہی کرنے کے لیے اپنا چیئرمین بھی منتخب کرے گی۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن پاکستان نے 21 نومبر کو 3 وکلا کے ناموں کی منظوری دی تھی، جن میں ایک خاتون ایڈووکیٹ لبنیٰ سلیم پرویز کے علاوہ فیض انجم جندراں اور غلام اعظم قمبرانی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: قومی احتساب کمیشن کی سربراہی کیلئے ’جج‘ کے تقرر کی تجویز پیش

خیال رہے کہ لبنیٰ پرویز سندھ ہائی کورٹ میں ڈپٹی اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں جبکہ فیض انجم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے وکیل اور اسلام آباد بار کونسل کے رکن ہیں جبکہ کچھ برس قبل اس کونسل کے وائس چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

دوسری جانب غلام اعظم قمبرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مشہور وکیل ہیں، جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں۔

آئین کی دفعہ 175-اے کے تحت عدالتی کمیشن، ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں خالی عہدوں پر تعیناتی کے لیے ججز کو نامزد کرتی ہے۔

مذکورہ کمیٹی میں 8 اراکین شامل ہوتے ہیں، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 4 حکومتی جبکہ 4 اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین شامل ہوتے ہیں اور کمیٹی کو 15 روز میں نامزدگیوں پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقدمات میں کمیشن تشکیل دینا ایل جے سی پی کا کام نہیں،

اس سلسلے میں 11 نومبر کو وزارت قانون نے جے سی پی کو رسمی طور پر خالی عہدوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی نامزدگیوں سے آگاہ کیا تھا۔

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) نے پارلیمانی کمیٹی کو ایک خط ارسال کر کے درخواست کی تھی کہ عدالتی کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ 2 ناموں پر غور نہ کیا جائے۔

بار ایسوسی ایشن نے لبنیٰ پرویز اور غلام اعظم قمبرانی کی نامزدگی پر احتجاجاً ایک قرارداد بھی منظور کی تھی اور فیض انجم جندراں چونکہ بار کونسل کے رکن ہیں، اس لیے ان کی نامزدگی پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان سے ججز کے نامزدگی پر بار ایسوسی ایشن نے احتجاجی تحریک کی دھمکی دی تھی اور ان کا موقف تھا کہ اس سے مقامی وکلا کا حق مارا جائے گا۔


یہ خبر 30 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں