ضمانت قبل از گرفتاری دینے میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2019
فیصلے میں کہا گیا کہ بدنیتی کو درخواست گزاران کے خلاف کارروائیوں کے آغاز سے نہیں جوڑا جاسکتا 
— فائل فوٹو: اے پی پی
فیصلے میں کہا گیا کہ بدنیتی کو درخواست گزاران کے خلاف کارروائیوں کے آغاز سے نہیں جوڑا جاسکتا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری عدلیہ کا اختیار اور غیر معمولی طریقہ ہے لہٰذا اسے صرف بے گناہ افراد کو قانونی عمل کے غلط استعمال کے خوف سے تحفظ دینے کے لیے محتاط طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔

سندھ ہائی کورٹ کے 5 نومبر کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر 3 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس قاضی محمد امین احمد نے لکھا کہ بدنیتی کے مقاصد سے شروع کیا جانے والا کوئی بھی پروسیکیوشن قانونی عمل کا غلط استعمال ہے۔

مذکورہ اپیلیں سندھ کے محکمہ آبپاشی کے عہدیداران طارق حسین، شیر محمد، ایاز احمد سومرو، علی گل پھل، غلام علی اور کنٹریکٹرز غلام سرور، طارق حسین اور میر محمد سودور کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیے گئے کرپشن ریفرنس میں ممکنہ گرفتاری پر ضمانت کے لیے دائر کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: ماتحت عدالتیں معاملات صحیح طریقےسے دیکھیں تو یہ سپریم کورٹ تک نہ آئیں، چیف جسٹس

نیب نے سال 15-2013 کے لیے خیرپور میں آبپاشی کے لیے سالانہ ترقیاتی منصوبے میں فنڈز کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔

کیس کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جزوی کام کے علاوہ خیرپور میں آبپاشی کے لیے کوئی کام نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ سے 8 کروڑ 90 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا۔

تاہم عدالت میں سماعت میں سپریم کورٹ نے اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہر عام مجرمانہ کیس میں جھوٹ اور ایک جیسی کہانیوں پر مبنی درخواستوں میں قبل از گرفتاری کے عدالتی تحفظ میں توسیع نہیں دینی چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا قوانین کی خلاف ورزی اور منصوبے میں غبن کی شکایت پر سندھ ہائی کورٹ نے ماہرین کی جانب سے تصدیق کی بنیاد پر تحقیقات کا حکم دیا، جنہوں نے انکشاف کیا کہ منصوبے کے مختلف پلانز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، ساتھ ہی جزوی طور پر کام کیا گیا جو مطلوبہ معیار سے انتہائی کم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: دہشتگردی کے مجرم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

اس حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ بدنیتی کو درخواست گزاروں کے خلاف کارروائیوں کے آغاز سے نہیں جوڑا جاسکتا لہٰذا وہ کسی پروسیکیوشن میں اس عدالتی تحفظ کا دعویٰ نہیں کرسکتے جو ضمانت کے ریلیف کو ختم کرتا ہے۔

فیصلے میں اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کو 3 ماہ کے اندر ٹرائل ختم کرنے کا حکم دیا تھا جس میں ملزمان کے تعاون کی ضرورت تھی، اس طرح ان کے پاس اپنی پوزیشن واضح کرنے کا آپشن بھی تھا۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم قانون کے مطابق ہے اور یہ سپریم کورٹ کی مداخلت کا مطالبہ نہیں کرتا۔

مذکورہ منصوبے کو 2014 میں عمل میں لایا گیا تھا اور اگست 2018 تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا تھا جس میں اس حوالے سے کیے جانے والے کام میں خامی کا علم ہوتا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے سے بھی منع کردیا۔


یہ خبر 30 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں