پشاور کی مقامی عدالت نے سرجن ڈاکٹر ضیا الدین کی شکایت پر صوبائی وزیر صحت ہاشم انعام اللہ، قومی صحت ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر نوشیرواں برکی اور دیگر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج تنویر اقبال نے ڈاکٹر ضیاالدین کی جانب دائر کی گئی درخواست کو کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی شق 22 – اے کے تحت منظور کیا، جو عدالت کو ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) رجسٹر کرنے کا اختیار دیتی ہے جب متعلقہ پولیس جرم کے بعد مقدمہ درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ درخواست گزار نے جرم کے ارتکاب کے الزامات عائد کیے تھے اور مقامی پولیس کو معاملہ رپورٹ کیا تھا لیکن تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

مقامی عدالت نے یونیورسٹی ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو فریقین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جس میں ہاشم انعام اللہ، ڈاکٹر نوشیرواں برکی، ڈاکٹر جواد احمد، خیبر ٹیچنگ ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر نیک داد اور 5 یا 6 گارڈز شامل ہیں جو واقعے کے وقت ہسپتال میں وزیر کے ہمراہ موجود تھے۔

مذکورہ واقعہ 14 مئی 2019 کو پیش آیا تھا جب درخواست گزار ڈاکٹر ضیا الدین آفریدی نے قومی صحت ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر نوشیرواں بخاری پر انڈے پھینکے تھے جو وہاں اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

اس کے بعد صوبائی وزیر صحت نے اپنے گارڈز کے ہمراہ ہسپتال کا دورہ کیا اور درخواست گزار پر مبینہ طور پر تشدد کیا جس کے بعد ڈاکٹروں نے چند روز کے لیے احتجاجی طور پر اپنی ڈیوٹی سے بائیکاٹ بھی کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ صوبائی وزیر اور دیگر فریقین، جس میں ان کے 5 سے 6 نجی اور سرکاری مسلح سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں، انہوں نے پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے سرجیکل ’ای‘ یونٹ میں واقع ان کے دفتر کے باہر انہیں گھیرا تھا۔

وکیل نے کہا کہ ہاشم انعام اللہ نے درخواست گزار کے خلاف غلط زبان استعمال کی اور ان پر حملہ بھی کیا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر ضیاالدین کے سر اور سینے پر کئی چوٹیں آئیں۔

وکیل نے بتایا کہ صوبائی وزیر صحت کے نجی گارڈز نے درخواست گزار پر ہتھیار تانے ہوئے تھے اور انہیں رائفل کے دھاتی حصے سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، جس کے نتیجے میں درخواست گزار کے سر پر شدید چوٹیں آئیں ان کی پسلیاں فریکچر ہوگئیں اور ہاتھ بھی زخمی ہوئے۔

علاوہ ازیں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ فرش پر موجود درخواست گزار کا خون صوبائی وزیر صحت اور ان کی انتظامیہ کی ہدایت پر شواہد مٹانے کی غرض سے فوری طور پر دھو دیا گیا تھا۔

وکیل نے بتایا کہ ڈاکٹر ضیا الدین کو 9 روز تک انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ینگ ڈاکٹروں نے ایف آئی آر کے لیے پولیس سے رجوع کیا لیکن پولیس نے انہی کو گرفتار کرلیا۔

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ حادثے کے ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر نوشیرواں برکی تھے اور ڈاکٹر ضیا الدین نے خیبرپختونخوا میں ایم ٹی آئیز میں ان کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

تاہم عدالت کے نوٹس کے باوجود ایس پی نے شکایات درج نہیں کی۔


یہ خبر یکم دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں