طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج

02 دسمبر 2019
طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تھا—فائل فوٹو: عمران گبول
طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تھا—فائل فوٹو: عمران گبول

لاہور: پولیس نے حال ہی منعقد ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمات درج کرلیے اور عالمگیر وزیر نامی ایک شخص کو گرفتار بھی کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سول لائن پولیس نے ریاست کی مدعیت میں مارچ کے منتظمین عمار علی جان، فاروق طارق، (مشال خان کے والد) اقبال لالا، (پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے) عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل کے علاوہ 250 سے 300 نامعلوم شرکا کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

واضح رہے کہ مشال خان کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا۔

حیران کن طور پر یہ اقدام طلبہ کی حمایت کرنے والے وزرا اور حکومتی نمائندوں کے حالیہ بیان کے برعکس ہے۔

مزید پڑھیں: ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ

واضح رہے کہ ملک بھر میں 50 شہروں میں طلبہ اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے اور ان مطالبات میں ایک طلبہ یونین کی بحالی بھی تھا۔

اس حوالے سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق شکایت کنندہ سب انسپکٹر محمد نواز کا کہنا تھا کہ وہ پیٹرولنگ پر تھا جب اسے اطلاع ملی کہ 250 سے 300 افراد کی ریلی عمار علی جان، فاروق طارق، اقبال لالا، عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل خان کی قیادت میں نکالی جارہی ہے اور یہ ریلی دی مال پر فیصل چوک پر پہنچ گئی ہے، جہاں مظاہرین نے زبردستی سڑک بلاک کردی ہے تاکہ وہ اسٹیج بنا کر تقاریر کرسکیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'مقررین طلبہ کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف اکسا رہے اور تقاریر اور نعرے موبائل فون پر ریکارڈ کیے گئے جبکہ انہیں پی پی آئی سی 3 کیمروں کے ذریعے بھی دیکھا جاسکتا ہے'۔

اس حوالے سے کیپیٹل سٹی پولیس افسر ذوالفقار حمید نے ڈان کو بتایا کہ ایک مشتبہ شخص عالمگیر وزیر کو 2 روز قبل اس کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ کیس ریاست کی جانب سے درج کروایا گیا کیونکہ طلبہ اشتعال انگیز تقاریر کررہے تھے اور ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس میں ملوث دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کرے گی۔

واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عالمگیر وزیرجو پختون کونسل کے چیئرمین بھی بن گئے تھے وہ 2 روز قبل کیمپس سے لاپتہ ہوگئے تھے، انہوں نے گزشتہ برس اپنا بی ایس جینڈر اسٹڈیز مکمل کیا اور وہ وہاں اپنی ڈگری کے حصول کے لیے تھے، وہ اپنے کزن محمد ریاض کے ہمراہ ہاسٹل نمبر 19 میں رہ رہے تھے۔

علاوہ ازیں پختون کونسل کے طلبہ نے عالمگیر وزیر کی گرفتاری کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

مظاہرین کی جانب سے ان کی گرفتاری کی مذمت کی گئی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا، یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی ان کی گمشدگی کی خبر سے بھر گیا اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں طلبہ حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل آئے

دریں اثنا عمار علی جان نے ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے ایف آئی آر کی نقل لگاتے ہوئے لکھا کہ 'ہمیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا، ہم گورنر سے ملے تھے جنہوں نے ہمیں حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی جبکہ وزرا نے بھی ہماری حمایت میں ٹوئٹ کیں'۔

انہوں نے لکھا کہ 'مظاہرین جمع ہوئے اور پرامن منتشر ہوگئے، کیا ہمارے ملک میں کوئی حکومت بھی ہے؟ کیا ہم کسی کے الفاظ پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ ہم پرامن شہری ہیں اور ہم ایسے ہی رہیں گے'۔

اس بارے میں ڈان سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کے ہزاروں طلبہ اپنے حقوق اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے احتجاج کر رہے تھے لیکن ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت انہیں سزا دینے کے لیے کولونیل دور کا قانون استعمال کر رہے جیسے برٹش اپنے بادشاہ کے خلاف نعرے بازی کے لیے مقامی لوگوں پر استعمال کرتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں