حکومت کا کوئی ادارہ ٹیکس افسر سے ریکارڈ طلب نہیں کرسکتا، وکیل جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں سے ایک ہیں —فائل فوٹو: ٹوئٹر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں سے ایک ہیں —فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم بھی کسی فرد کا ٹیکس ریکارڈ طلب نہیں کرسکتے کیونکہ ایسی درخواست انکم ٹیکس قوانین کے دائرہ کار میں نہیں آتی.

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

اس حوالے سے ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کرمنل ٹرائل سے متعلق کیس میں ٹیکس دہندگان کے ریکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کے علاوہ انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 اور نادرا آرڈیننس 2000 رازداری کا تقاضہ کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سامنے دلائل میں انہوں نے آئی ٹی او کی دفعہ 216 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ریکارڈ کی رازداری کی خلاف ورزی پر 5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ ایک سال قید کی سزا عائد ہوتی ہے۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے مزید بتایا کہ سیکشن 199 کے تحت ٹیکس ریکارڈ کی فراہمی کرنے والا افسر بھی قابل گرفت ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ 10 مئی کو جب ٹیکس کمشنرز اور دیگر ٹیکس افسران نے ایک ہی دن اثاثہ جات بازیابی یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین کو مختلف رپورٹیں تیار کرکے ارسال کیں تو وہ سب جسٹس فائزعیسیٰ کے ٹیکس ریکارڈ شیئر کرنے کے مجرم کہلائے۔

منیر اے ملک نے دلیل دی کہ جب عبدالوحید ڈوگر کی طرف سے جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف شکایت موصول ہوئی تب اے آر یو کے چیئرمین کو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے پاس بھیجنے سے نہیں روکا گیا۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ جس طرح سے شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں، کیا اس کے پیش نظرریفرنس کو نظرانداز کیا جانا چاہیے؟ جس پر وکیل نے مثبت جواب دیا۔

اسی دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ "ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ گویا ثبوت قابل قبول ہیں اگرچہ اس کو جمع کرنے میں کچھ نقائص ہیں کیونکہ رائے قائم کرنے سے پہلے صدر کو اپنا ذہن اپنانا پڑا'۔

اس پر وکیل نے دلائل دیے کہ صدر کو جج کے خلاف کسی بھی ماتحت اتھارٹی کے ذریعہ جمع کردہ مواد کی بنیاد پر اپنی رائے نہیں بنانی چاہیے۔

وکیل کی بات پر جسٹس مقبول بابر نے استفسار کیا کہ آپ جو کچھ تجویز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ صدر کے سامنے ریفرنس دائر کرنے کے لیے جو مواد پیش کیا گیا وہ رائے بنانے کے لیے قابل عمل نہیں تھا۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

بعدازاں جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا صدر انکوائرئی کے لیے پہلے سے موجود معلومات پر آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اے آر یو کے چیئرمین کو پہلے تحقیقات کرلینی چاہیے تھی۔

جس پر وکیل نے کہا کہ عبدالوحید ڈوگر کی طرف سے موصول شکایت کے بعد آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت انکوائری صرف ایس جے سی ہی کر سکتی تھی، اس پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وکیل یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عبدالوحید ڈوگر سے شکایت موصول ہونے کے بعد صدر کو پہلے شکایت کنندہ سے مزید معلومات طلب کرنی چاہیے تھی اور پہلے اپنی رائے قائم کرکے پھر انکوائری کے لیے ایس جے سی کو معاملہ بھیجنا چاہیے تھا۔

عدالتی ریمارکس پر منیر ملک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں یہ بہتر طور پر نہیں کہہ سکتا تھا کہ اے آر یو کے چیئرمین کو تحقیقات کے لیے پہلے اختیار دیا جانا چاہیے تھا۔

اس ضمن میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی استفسار کیا کہ کسی خاص معاملے میں صدر کو اپنی رائے بنانے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا کہ صدر اور ایس جے سی شکایت کی تحقیقات کے سلسلے میں مختلف آرا پر کھڑے ہیں لیکن اے آر یو کے چیئرمین اس سلسلے میں رائے نہیں دے سکتے، فرض کریں کہ شکایت کنندہ نے درخواست کوہسار پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو بھجوا دی تھی۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا ایس ایچ او نادرا یا ایف بی آر سے معلومات کا ایک خاص حصہ پیش کرنے کے لیے کہہ سکتا تھا؟

ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا کہ 'وہ بالکل ایسا نہیں کرسکتا اور اسی بنیاد پر اے آر یو کے چیئرمین ایف بی آر یا نادرا سے ذاتی معلومات نہیں مانگ سکتے'۔

مزیدپڑھیں: جج کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرہ نہیں، اٹارنی جنرل

علاوہ ازیں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ مواد وزیر قانون کے پاس گیا تھا، جس پر منیر ملک نے کہا کہ مواد اکٹھا کرنے کا کام وزیر قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس 10 رکنی بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں