جیمز برنس سندھ کے دربار میں

جیمز برنس سندھ کے دربار میں

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

کچھ دن پہلے ہی بارشوں کا سلسلہ تھما تھا۔ اب دن بھی تھوڑے گرم ہیں۔ گہری چُپ چھائی ہوئی ہے۔ آسمان سے گزرتی کونجوں کی ڈار اپنی مدھر آوازیں جہاں کانوں میں رس گھولتی ہے وہیں گہری خاموشی کو توڑ دیتی ہیں۔

وہاں موجود جھیل کے کنارے گھاس پھوس کے جنگل اُگے ہیں۔ پرندوں کے جھنڈ جھیل پر اترتے ہیں۔ سرکنڈوں پر دودھ جیسے سفید پھول کھلنے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ کچھ دن سے شمال کی ہواؤں کے شرمیلے جھونکے بھی ترسا ترسا کر جسم کو چھوئے جاتے ہیں۔

مگر سمندر کا کہرا شمال کی ہواؤں کو بھگا دیتا ہے۔ اچانک جنوب مغرب کی طرف سے کسی قافلے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ کچھ گھوڑے اور اونٹ ہیں، جن میں سے اکثر پر سامان لدا ہوا ہے۔ کچھ گھوڑوں پر لوگ سوار ہیں اور باقی پیدل چل رہے ہیں۔ یہ تقریباً 100 افراد پر مشتمل قافلہ ہے۔ وہ جس راستے پر گامزن ہو رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی منزل ’رڑی‘ نامی چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ ’جیمز برنس‘ نامی برطانوی سرجن کا قافلہ ہے جو ’کَچھ‘ سے نکلا ہے اور حیدرآباد جا رہا ہے۔

جب سرجن جیمز ’بھج‘ میں برٹش راج کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے انہی دنوں، بتاریخ 23 اکتوبر 1827ء، برٹش راج کو سندھ کے حکمران تالپوروں کا خط موصول ہوا تھا جس میں لکھا تھا کہ میر حکمرانوں میں سے ایک مراد علی شدید بیمار ہیں اور گزارش کی گئی کہ علاج کی غرض سے جیمز برنس کو سندھ بھیجا جائے۔

اس خط پر برنس صاحب کا ردِ عمل کچھ یوں تھا، ’میں اس بلاوے پر بے حد خوش تھا اور اس انتطار میں تھا کہ سرحد کے اس پار جا کر سندھ کے تاریخی دریا کو دیکھوں، اس لیے یہ دعوت مجھے عزیز تھی اور خوشگوار محسوس ہوئی‘۔

اب چونکہ برنس لکھاری نہیں تھے اس لیے ہمیں ’رچرڈ برٹن‘ کی طرح ان سے منظرناموں کی عکاسی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ ہر بات سیدھی کرتے ہیں۔ اگر کسی شے یا منظرنامے سے زیادہ متاثر یا پریشان ہوتے ہیں تو چند لفظوں میں اپنی کیفیت کا اظہار کردیتے ہیں۔ انہوں نے 2 سے 3 ماہ سندھ کی زمین پر گزارے۔

مگر یہ عرصہ تاریخی اعتبار سے اہم یوں بھی تھا کہ میر حکمران کی 40 سالہ حکمرانی کا عروج ماند پڑچکا تھا۔

اگر ہم برنس صاحب کے اس سفرنامے کا بغور مطالعہ کریں تو باتوں باتوں میں ہمیں وہ حقائق بھی پتا چلتے ہیں جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ 19ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ان کے زوال کا آغاز ہوچکا تھا۔ چنانچہ یہ کتاب ان وقتوں کے سندھ کے حالات سمجھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

جیمز برنس
جیمز برنس

چلیے ہم بھی آج سے تقریباً 200 برس قبل اس دھرتی پر قدم رکھنے والے سرجن جیمز برنس کے قافلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ 200 برس پہلے سندھ کے صدر مقام تک پہنچنے کے لیے کیسی سواریاں استعمال کی جاتی تھیں اور کون سے راستے لیے جاتے تھے۔ زراعت کیسی تھی اور لوگ کیسے تھے۔

برنس اس سفر کے سلسلے میں 28 اکتوبر 1827ء کو ’بھج‘ سے ’لکھپت‘ پہنچے۔ لکھپت ایک زمانے میں دریائے سندھ کے مشرقی بہاؤ کی ’کوری ندی‘ پر آباد تھا۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ سندھ کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو کی خواہش تھی کہ ’کَچھ‘ کو سندھ کا صوبہ بنایا جائے لیکن جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا تو اُس نے اس مشرقی بہاؤ پر ایک بند بنوایا اور دوسری نہریں نکالیں تاکہ پانی کَچھ کی طرف نہ جائے، یوں لکھپت سمیت پورا کَچھ ویران ہوگیا۔

وہ 3 نومبر کو لکھپت کے اس ویران قلعے سے اپنے سفر پر نکلے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’ہم سفر کی تمام تیاریوں کے بعد دوپہر کو کشتیوں پر روانہ ہوئے، موسم اچھا تھا اس لیے دوسری طرف ہم ’کوٹڑی‘ گھاٹ پر شام 5 بجے پہنچ گئے۔ ہمیں یہاں 100 اونٹوں کا قافلہ ملا جن پر دیسی گھی کے ڈبے لدے ہوئے تھے اور وہ کَچھ کی طرف جا رہے تھے۔ ہم نے رات کی چاندنی میں سفر شروع کیا۔ (آپ اگر کیلنڈر دیکھیں گے تو پائیں گے کہ 3 نومبر 1827ء کو ہفتے کا دن تھا اور جمادی الثانی 1243ھ کی 13ویں تاریخ تھی، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ چاند کی کتنی تیز اور ٹھنڈی روشنی میں برنس صاحب کے قافلے نے سفر کیا ہوگا)۔

گزرے وقتوں میں بنایا جانے والا شہر حیدرآباد کا ایک خاکہ
گزرے وقتوں میں بنایا جانے والا شہر حیدرآباد کا ایک خاکہ

5 نومبر کو وہ رڑی پہنچے، رڑی جو اپنے زمانے میں کپاس اور اونٹوں کے کاروبار کا بڑا مرکز تھا، مگر وہ کمال کے دن، کسی موسم کی طرح رڑی سے روٹھ گئے تھے۔

برنس لکھتے ہیں، ’کوٹڑی گھاٹ سے رڑی کا فاصلہ 50 میل ہے۔ یہ ایک ہنستا بستا شہر تھا جو اب اپنے آخری دن گن رہا ہے۔ یہاں قرب و جوار میں بہت سی جھیلیں بھی ہیں‘۔ رڑی کے آخری دن ضرور تھے، مگر سیکڑوں خاندان تھے جو وہاں بستے تھے اور دھان کی فصلیں کھیتوں میں لہلہاتی تھیں اس لیے برنس کے قافلے کے گھوڑوں کو گھاس کے بجائے ہری دھان دی گئی تھی۔

یہاں میروں نے، برنس کے استقبال کے لیے 2 معززین، حیدر خان لغاری اور بہادر خان کو بھیجا تھا اور ساتھ میں 50 اونٹ بھی بھیجے کہ برنس کے قافلے کا کوئی بھی آدمی پیدل سفر نہ کرے۔ برنس لکھتے ہیں کہ ’رڑی کے بعد ہمارے سارے اخراجات میروں نے ادا کیے اور مجھے خرچ کرنے سے منع کیا گیا۔ ہمیں خوراک کے لیے جو سامان ملتا تھا وہ انتہائی اعلیٰ درجے کا تھا۔ روزانہ وافر مقدار میں چینی، مٹھائیاں اور افیم دیا جاتا تھا‘۔

رڑی کے بعد وہ شاہ کپور اور میرپور بٹھورو سے ہوتا ہوا ’بنوں‘ پہنچا جو اب بھی دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’مجھے اس تاریخی اور مشہور ندی کو دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ میں سامان ڈھونے والا قافلہ پیچھے چھوڑ کر، دن میں 40 میل کا سفر کرکے، تھک ہار کر شام کو اس ندی کے کنارے آ پہنچا۔ یہاں پہنچنے اور اس ندی کو دیکھنے کے بعد جو کیفیات میرے اندر پیدا ہوئیں انہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ میرے ساتھ جو ہندو ساتھی تھے، ان کی جیسے ہی سندھو ندی پر نظر پڑی تو انہوں نے پوجا کرنی شروع کردی۔

جیمز برنس
جیمز برنس

اس سفر کے دوران، برنس نے باز سے پرندوں کا شکار بھی کیا۔ پرندوں کا گوشت اس کے دسترخوان پر وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا۔ اس کا قافلہ اب تقریباً ایک ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔ آپ تھوڑا تصور کریں کہ اس زمانے میں، جب ہوا بہتی ہوگی تو اس میں یقیناً کوئی شور و غُل نہیں ہوتا ہوگا۔ آبادی کم تھی اور لوگوں پر سادگی کی شبنم برستی تھی۔ اس زمانے میں اگر ایک ہزار لوگوں کا قافلہ چلتا ہوگا، جس میں سب سے آگے گورا چٹا اور سوٹ بوٹ پہنے فرنگی گھوڑے پر سوار ہو، گھوڑوں اور اونٹوں کی لمبی قطار ہو، ایسے میں تو ہر کوئی اسے دیکھنا چاہے گا۔ اور یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ کیا ہوا؟

یہ ہم جناب برنس صاحب سے ہی سُن لیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ’جس راستے سے ہمارا قافلہ آ رہا تھا وہاں سے، اس سے پہلے کوئی یورپی نہیں گزرا تھا۔ اس لیے جن جن دیہاتوں سے ہم گزرتے، ہمیں دیکھنے کے لیے لوگوں کا میلہ لگ جاتا۔ ہم جہاں قیام کرتے وہاں میرے تنبُو کے گرد بہت سارے لوگ اکٹھے ہوجاتے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں کیسا ہوں۔ مطلب ایک فرنگی کیسا ہوسکتا ہے‘۔

برنس بالآخر 10 نومبر کو حیدرآباد میں داخل ہوا۔ شہر کے داخلی حصے سے ایک میل آگے ان کے شاندار استقبال کے لیے تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں۔ میر فراخ دلی کم کرتے، مگر جب کرتے تو اس کی حد ہی نہ ہوتی۔ اس معاملے میں برنس یقیناً خوش نصیب تھے کہ اس طرح کی فراخ دلی کی بارش کسی اور گورے پر نہیں ہوئی تھی۔

انہیں ایک شاندار اور اعلیٰ نسل کے سیاہ گھوڑے پر سوار کیا گیا۔ یہ گھوڑا وزیرِاعظم ولی محمد خان لغاری اپنے ساتھ لے آئے تھے جس پر سونے کی زین تھی۔ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو برنس کو دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ برنس لکھتے ہیں کہ ’مجھے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوگئے تھے۔ گھوڑے پر جب مجھے بہت زیادہ گرمی محسوس ہوئی تو پالکی میں سوار کیا گیا۔ یہ جلسہ میروں کی رہائش گاہ کی طرف بڑھتا رہا۔ میں جب قلعے کے اندر پہنچا تو ہر سُوں خاموشی کا راج تھا۔ پھر میری جب شاہی خاندان سے ملاقات کرائی جارہی تھی تب میرے سامنے ایک ہی وقت میں پورا شاہی خاندان اکھٹا تھا۔ میں نے ایسا شاندار منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا‘۔

حیدرآباد کا پکا قلعہ
حیدرآباد کا پکا قلعہ

برنس یہاں ’میر علی مراد‘ کا علاج کرنے آئے تھا۔ شاید ملیریا کا۔ مگر برنس کے تجزیے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ملیریا سے زیادہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا تھے کیونکہ ہر وقت اداس رہنا، صحت کے حوالے سے کوئی معمولی سی بھی شکایت ہوجاتی تو ساری رات جاگتے رہنا۔ بہرحال جو بھی تھا برنس کے علاج سے اسے افاقہ ہوا۔ برنس کے پاس ’کوئنین‘ کی ٹکیاں تھیں جو ملیریا کا ایک لاثانی علاج تھا۔ ویسے تو پیرو (جنوبی امریکا) میں 1632ء سے ملیریا کے لیے Cinchone درخت کی چھال سے ملیریا کا علاج مروج تھا۔ مگر سائنسی بنیادوں پر 1820ء میں کوئنین کو اس کی چھال سے الگ کرکے دوا کی صورت میں لایا گیا تھا۔ مگر یہ ٹکیاں جب 10 برس بعد برنس کے ساتھ، سندھ کی دربار میں پہنچیں تو ان کو ’جادوئی ٹکیوں‘ کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ ان ٹکیوں کی بوتل کسی خزانے کی طرح برنس کے سامان سے چُرالی گئی۔ جب برنس خود ملیریا کی وجہ سے بیمار ہوا اور اسے کوئنین کی شدید ضرورت پڑگئی۔ مگر اس کو یہ جادوئی ٹکی نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے اسے ملیریا نے نحیف کرکے رکھ دیا، یہاں تک کہ بیماری کے دوران وہ پورا ایک دن بے ہوش رہا۔ ان کی تیمارداری کے لیے نواب ولی محمد لغاری سارا دن ان کے پاس بیٹھے رہے۔ یہ بھی برنس کے لیے یقیناً ایک اعزاز ہی تھا کہ، ملک کا وزیرِاعظم سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہا۔

نواب ولی محمد لغاری
نواب ولی محمد لغاری

ہم ’برنس‘ صاحب کو صحتیاب ہونے کے لیے کچھ وقت آرام کرنے دیتے ہیں۔ تب تک ہم مختصراً یہ جان لیتے ہیں کہ ’کلہوڑوں‘ کے بعد سندھ کی حکومت ’میروں‘ کو کس طرح ملی۔ ’غلام شاہ کلہوڑو نے 1772ء کی سخت گرمیوں میں وفات پائی، جس کے بعد ان کے بڑے ’میاں محمد سرفراز خان‘ تخت نشیں ہوئے۔ ان کے دربار میں سب سے معزز شخص بلوچ قوم اور تالپور گھرانے سے تعلق رکھنے والا ’سردار میر بہرام خان‘ تھا۔ میاں سرفراز کے اشارے پر میر بہرام اور اس کے بیٹے ’صوبدار خان‘ کو قتل کردیا گیا۔

5 برس کی حکومت کے بعد سرفراز کو معزول کیا گیا تو تخت پر اس کا بھائی ’میاں محمد خان‘ اور ان کے چچا زاد بھائی ’میاں صادق خان‘ تخت پر بیٹھے۔ مگر ایک برس بھی پورا نہیں ہوا کہ انہیں قید میں ڈال دیا گیا، جس کے بعد غلام شاہ کلہوڑو کے بھائی ’میاں غلام نبی خان‘ تخت پر براجمان ہوئے۔ انہوں نے بھی بہرام خان کے بیٹے ’بجر خان‘ کو قتل کرنے کا سوچا، جو باپ کے قتل کے وقت حج کرنے گیا ہوا تھا۔ مگر ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں اور وہ خود ہی جنگ میں مارے گئے۔

اس واقعے سے حکومت کی باگ ڈور بجر خان کے ہاتھ میں آگئی۔ مگر انہوں نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے بھائی میاں عبدالنبی کو تخت پر بٹھایا۔ مگر کلہوڑوں کی بدبختی اپنے عروج پر تھی۔ انہوں نے دیگر لوگوں کے احسانات و عنایتوں کا کوئی پاس نہ رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ’میاں عبدالنبی‘ نے بھی میر بجر خان کو قتل کرنے کی کوشش کی اور وہ کوشش کامیاب ہوگئی۔

اس قبیح عمل کے لیے انہوں نے جودھ پور کے راجا اور اپنے دوست بائی سنگھ سے مدد حاصل کی۔ مہاراجا نے پیغام رسائی کے بہانے بجر خان کی طرف 2 قاتلوں کو روانہ کیا، انہوں نے بجر خان کے پاس پہنچ کر بجر خان کو کہا کہ وہ ان سے تنہائی میں کوئی بات کہنا چاہتے ہیں۔ تنہائی کا موقع پاتے ہی قاتلوں نے بجر خان پر چاقو کے وار سے ان کا قتل کردیا۔ اس واقعے پر میروں کا شدید ردِعمل سامنے آیا۔ جس کی وجہ سے میاں عبدالنبی کو جلاوطن ہونا پڑا اور تخت پر اتفاق رائے سے، ’میر صوبدار‘ کے بیٹے اور میر بہرام کے پوتے ’میر فتح خان‘ کو بٹھایا گیا۔

میر فتح علی خان تالپور
میر فتح علی خان تالپور

میر فتح خان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے 3 بھائیوں ’میر غلام علی‘، ’میر کرم علی‘ اور ’میر مراد علی‘ کو، اپنے ساتھ حکومت میں شامل کیا۔ ان چاروں بھائیوں کا ایک دوسرے سے محبت، شفقت اور احترام سے بھرپور رشتہ قائم رہا۔ ان کے دورِ حکومت کو ’چویاری‘ یا چار دوستوں کی حکومت بھی پکارا جاتا ہے۔ برنس کے مطابق ’میر فتح علی 1801ء میں اور میر غلام علی 1811ء میں انتقال گرگئے تھے، مگر یہ حکومت ایک کرشمے سے کم نہیں ہے کہ اب تک، اسی کیفیت میں کامیابی سے چلتی آ رہی ہے‘۔

برنس تھوڑے ہی عرصے میں تالپور حکمرانوں کی پسندیدہ شخصیت بن گئے تھے۔ انہوں نے تالپوروں کے پاس جہاں نایاب ہیرے جواہر، تلواریں، خنجر اور بندوقیں دیکھیں، وہیں ’حافظ‘ اور ’سعدی‘ کے دیوانوں کے خوبصورت قلمی نسخوں کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ وہ ان کی دربار کا بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح وہ حکومت کا کاروبار نظم اوقات سے چلاتے تھے۔ وہ شکار کے شوقین ضرور تھے مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ ’رڑی‘ سے حیدرآباد تک برنس نے انتہائی زرخیز زمینیں دیکھی تھیں، جنگل دیکھے تھے اور ڈیلٹائی علاقے کی موجودگی کے باعث انہیں بہت سی جھیلیں بھی نظر آئیں، جو پرندوں اور مچھلیوں کی آماجگاہیں تھیں۔ جیسا کہ برنس، نومبر کے مہینے میں آئے تھے، سو انہی دنوں میں سرد علاقوں کے پرندوں کی آمد رہی ہوگی، جو صدیوں سے ’انڈس فلائے وے زون‘ کے راستے ان ڈیلٹائی جھیلوں پر آتے رہے ہیں۔

تالپور چویاری حکومت میں شامل میر حکمران—میر عطا محمد تالپور (talpur.org)
تالپور چویاری حکومت میں شامل میر حکمران—میر عطا محمد تالپور (talpur.org)

اس سفرنامے میں ایک اور اہم بات جو ہمیں نظر آتی ہے، وہ ہے ’کَچھ‘ صوبے سے متعلق میر صاحبان کی برنس صاحب کے ساتھ گفتگو۔ اس گفتگو کے دوران تالپور حکمرانوں نے ان سے کہا کہ ’کَچھ‘ صوبہ ان کے حوالے کیا جائے۔ جب برنس ان کو بتاتے ہیں کہ یہ صوبہ خسارے میں چل رہا ہے تو آپ اس کو لے کر کیا کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں، میر صاحبان انتہائی اہم اور حقیقی جواب دیتے ہیں کہ ’یہ ہم بہتر جانتے ہیں کہ کس طرح اس کی پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے اور آپ اگر یہ صوبہ ہمیں دیں تو اس کے لیے ہم آپ کو کسی شاہوکار بیوپاری کی گارنٹی دے سکتے ہیں‘۔ اس شاندار جواب سے ہمیں یہ بالکل لگنا چاہیے کہ میر صاحبان فقط شکار کے شوقین نہیں تھے بلکہ وہ اپنی حکومت کی حدود کو بڑھانے اور اپنی زمینوں کو زرخیز بنانا اور دیکھنا چاہتے تھے۔

جنوری تک میر مراد علی بالکل ٹھیک ہوگئے تھے۔ تاہم میروں کی خواہش تھی کہ برنس ان کے پاس ہی رہ جائے۔ مگر ایسا شاید ممکن نہیں تھا۔ اس لیے 21 جنوری کو، برنس آخری بار میروں کے دربار گئے۔

حیدرآباد کا پکا قلعہ
حیدرآباد کا پکا قلعہ

واپسی کے لیے انہوں نے دریائے سندھ کا راستہ مناسب سمجھا۔ 21 جنوری کی شام کو وہ کشتیوں کے قافلے کے ہمراہ واپسی کے سفر پر گامزن ہوگئے۔ وہ جس کشتی پر سفر کر رہے تھے اس میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ اس جگہ بھی شاندار طریقے سے سفر کرسکتی تھی جہاں پانی کم ہو۔

جنوری میں جب برف پگھلنے کا عمل تقریباً رُک جاتا ہے تو دریا میں پانی بہت کم ہوتا ہے لہٰذا ان دنوں سفر کو آسان بنانے کے لیے ’جھمٹی‘ نامی کشتی کو استعمال کیا جاتا اور برنس صاحب اسی کشتی میں سوار تھے۔ اس کے علاوہ شمال کی ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے برنس صاحب کو واپسی کے اس سفر میں یقیناً کسی قسم کی کوئی پریشانی درپیش نہیں آئی ہوگی۔

وہ 23 جنوری کو ٹھٹہ شہر کو دیکھنے کے لیے گھاٹ سے ہوتے ہوئے شہر کے بیچ بنی ہوئی ایسٹ انڈیا کی کوٹھی پر آئے اور عمارت کی چھت پر چڑھ کر ننگر ٹھٹہ کا نظارہ کیا۔ اس قدیم شہر سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ان کے مطابق ٹھٹہ 12 میلوں کی وسعت میں پھیلا ہوا شہر تھا۔ وہ 24 تاریخ کو ٹھٹہ سے نکلے اور پیرپٹھو کے قریب ’سیتا گھاٹ‘ پر اترے، جہاں سے حیدر لغاری کی رہنمائی میں مغلبھیں (جاتی) پہنچے اور 28 جنوری 1828ء لکھپت میں قدم رکھا۔ لوٹنے کے بعد انہوں نے اس پورے سفر کا احوال تحریری صورت میں 10 جون 1828ء کو بھُج کے سفارت خانے میں جمع کروایا۔

برنس نے اس سفرنامے (رپورٹ) کو Narrative of a visit to the Court of Sindhe کو عنوان دیا تھا جسے 1831ء میں انگلینڈ سے شائع کیا گیا۔ کیا خوب اتفاق ہے کہ اسی برس ہمیں ’برنس‘ خاندان کا ایک اور فرد سندھ میں گھومتا نظر آتا ہے، اور وہ تھا ’الیگزینڈر برنس‘۔ یہ صاحب جیمس برنس کے چھوٹا بھائی تھے، اور یہ وہی الیگزینڈر برنس تھے جنہوں نے ’ٹریول ٹو بخارا‘ جیسی مشہور کتاب لکھی تھی اور جسے 1841ء میں افغانستان میں آگ میں جلا کر ماردیا گیا تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی کی اس طرح جدائی برنس کے لیے نہایت دردناک رہی ہوگی۔

الیگزینڈر برنس
الیگزینڈر برنس

برنس نے ’ایڈنبرگ‘ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ 1821ء میں بمبئی پہنچے اور پھر ’کَچھ‘ کی ریزیڈنسی سرجن کے عہدے کے اوپن امتحان میں کامیاب ہونے پر انہیں اس علاقے میں افسر لگا دیا گیا۔

1829ء میں انہوں نے پہلی شادی بمبئی میں ’صوفیہ ہولس‘ سے کی، جن سے انہیں 9 بچے تھے۔ 28 برس نوکری کرنے کے بعد انہوں نے 1849ء میں استعفی دیا اور انگلینڈ لوٹ گئے۔ بعدازاں برنس نے دوسری شادی کی اور شادی کے قریب 3 ماہ بعد ہی 19 ستمبر 1862ء کو وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ برنس صاحب اس کتاب میں اپنی واپسی کا احوال بھی تفصیلی انداز میں بیان کرتے۔

وہ 28 جنوری کو ابھی کَچھ لوٹے ہی تھے کہ انہیں دوبارہ سندھ جانے کے احکامات موصول ہوئے اور یوں ایک بار پھر وہ سندھ کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ کوٹڑی گھاٹ پر اتر کر وہ 30 میل کا سفر طے کرکے ایک چھوٹی سی چوکی ’پالی‘ تک پہنچے ہی تھے کہ انہیں خبر ملی کہ میر صوبدار کی بغاوت کے سبب ملک میں بدامنی ہے۔ 13 فروری کو میروں کی طرف سے انہیں خط موصول ہوا کہ ’حالات خراب ہیں، ایسے حالات میں آپ کو آگے نہیں بڑھنا چاہیے‘۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے بھرج کی راہ پکڑ لی۔

میر صوبدار خان
میر صوبدار خان

برنس کی لکھی ہوئی اس کتاب سے متعلق رابرٹ ہٹن بیک اپنی کتاب ’برٹش ریلشنز ود سندھ 1799-1843 (British Relations with Sind 1799-1843) میں لکھتے ہیں کہ ’برنس کی اس کتاب کی مثبت رپورٹنگ کی وجہ سے انگریزوں کو اپنی مسقبل کی پالیسی بنانے میں کافی مدد ملی‘۔ بالکل ملی ہوگی۔ دراصل اس کتاب کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کہاں کہاں بغاوت کے بیج پنپ رہے ہیں یا کہاں بغاوت کے بیج بوئے جاسکتے ہیں۔

درحقیقت میر صوبدار خان سے سندھ کی دربار کا رویہ کوئی اچھا نہیں رہا، وہ انہیں ایک چھوٹی رقم دے کر دیوار سے لگائے ہوئے تھے، اور یہ ساری حقیقت برنس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ برنس تو لوٹ آئے تھے لیکن پیچھے سندھ میں میر صوبدار خان نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا اور یہاں کے حالات خراب ہوگئے۔ ان خراب حالات کی وجہ سے ہی برنس دوسری بار چاہنے کے باوجود سندھ نہ آسکے۔

ہم گزرے وقتوں میں ہونے والی اُتھل پُتھل پر ہزاروں باتیں کرسکتے ہیں۔ اپنی ذاتی رائے بھی قائم کرسکتے ہیں۔ سب مناسب ہے۔ مگر وقت کا گزرنا اور اچھے دنوں کی طرف بڑھتے رہنا بھی ایک مانا ہوا اصول ہے۔ ہم انسان ہیں، ہماری کی ہوئی نیکیوں اور غلطیوں سے ہی تاریخ مرتب ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ ہم ملائک یقیناً نہیں ہیں کہ غلطیاں نہ کریں۔ غلطی کرنا ہماری سرشت میں ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غلطی ہوگئی تو یہ آنے والے اچھے دنوں کی طرف چل پڑنے کی نوید بھی تو ہوتی ہے!


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔