سرگودھا: مریدوں کو قتل کرنے کے جرم میں درگاہ کے متولی کو ساتھیوں سمیت سزائے موت

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019
پولیس کو مذکورہ واقعے کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس کو مذکورہ واقعے کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سرگودھا: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سرگودھا کے نواحی گاؤں میں 20 مریدین کو قتل کرنے والے ایک درگاہ کے متولی اور اس کے ساتھیوں کو سزائے موت سنادی۔

عدالت نے درگاہ کے متولی عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں ظفر ڈوگر، آصف اور کاشف گجر کو مجموعی طور پر 400 سال قید کی سزا اور 5 کروڑ روپے بطور جرمانہ قتل ہونے والے افراد کے ورثا کو ادا کرنے کا حکم بھی دیا جو پنجاب کے ہی مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے 17 کلومیٹر فاصلے پر چک 95 شمالی میں 2 اپریل 2017 کو رونما ہونے والے المناک واقعے میں درگاہ علی محمد قلندر کے متولی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاٹھیوں اور چاقوؤں کے وار سے 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سرگودھا : درگاہ کے متولی کے ہاتھوں 20 افراد قتل

پولیس کو مذکورہ واقعے کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی، جن کے مطابق یہ خاتون ان دیگر 3 زخمی افراد میں شامل تھیں جو درگاہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری درگارہ پہنچی اور درگاہ کے متولی عبدالوحید کو اس کے 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا تھا جبکہ 19 افراد کی لاشیں بھی برآمد کی گئی تھی۔

پولیس نے بتایا تھا کہ ‘درگاہ کے متولی 50 سالہ عبدالوحید نے مریدوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا جس کے مطابق انھوں نے یہ سب اس لیے کیا کیونکہ انھیں شک تھا کہ وہ (مقتولین) مجھے مارنے آئے ہیں’۔

خیال رہے کہ 20 افراد کے قتل میں ملوث درگاہ کا متولی ملزم عبدالوحید چند سال قبل مستعفی ہونے سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا تاہم اس کے بعد اس نے اپنی تمام توجہ درگاہ میں ہونے والی سرگرمیوں پر مرکوز کردی تھی۔

مزید پڑھیں:سانحہ سرگودھا: مریدین کے عقائد اور قاتل کے مقاصد کیا تھے؟

ڈی سی سرگودھا کے مطابق زخمی خاتون نے پولیس کو بتایا تھا کہ متولی نے گذشتہ روز سے اپنے مریدوں کو بلا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ ملزم اپنے مریدوں کو فون کرکے بلاتا تھا اور ایک ایک کرکے ان کو کمرے میں بلا کر قتل کرتا رہا۔

واقعے کے حیران کن پہلو

ڈی سی نے بتایا تھا کہ عبدالوحید مریدین کو نشہ آور جوس پلا کر بےہوش کرتا اور پھر انھیں برہنہ کرکے لاٹھی اور چاقو کے وار سے ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجاتے اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو ایک کمرے میں جمع کرتا رہا اس طرح قتل ہونے والے افراد میں 16 مرد اور 3 خواتین شامل تھے۔

ڈان سے اس واقعے کے بارے میں مقامی افراد سے بات کی تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ ’آس پاس کے رہائشی جانتے تھے کہ عبدالوحید اپنے مریدوں کے گناہ دھونے کے لیے کیا طریقہ استعمال کرتا ہے، وہ انہیں برہنہ کرکے لاٹھی سے مارتا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سرگودھا: ’قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا‘

تاہم ایک پولیس کانسٹیبل، سابق ڈی ایس پی کا بیٹا اور علاقے کا بااثر شخص محمد گلزار عبدالوحید کے ساتھیوں میں شامل تھے لہذا اہل علاقہ میں سے کسی نے بھی درگاہ میں جاری ’مشکوک‘ سرگرمیوں کی شکایت درج کرانے کی ہمت نہیں کی۔

پولیس افسر کے مطابق تمام مریدین نے ’بے انتہا عقیدت‘ کی وجہ سے خود کو عبدالوحید کے حوالے کیا تھا۔

متولی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان تھیں جبکہ ان میں بزنس گریجویٹ، پولیس اہلکار اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کا بیٹا بھی شامل تھا۔

واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق مقتولین جمعے کے روز عبدالوحید کے سامنے اپنے ’گناہوں سے خلاصی‘ کے لیے پیش ہوئے تھے اور عبدالوحید نے انہیں بری طرح مار پیٹ کا نشانہ بنا کر ’گناہوں سے صاف کیا‘۔

اس واقعے میں زخمی ہونے والے محمد توقیر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’میں اس عمل سے گزرنے والا پہلا شخص تھا، مجھے عبدالوحید نے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اس کے بعد لاٹھی کے وار شروع کردیئے، سر پر لاٹھی کے مسلسل وار سہنے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا، جس کے بعد مجھے ہفتے کی صبح ہوش آیا، میرے آس پاس مردہ لوگ موجود تھے‘۔

متاثرہ شخص نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہلنے جلنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہیں لیٹا رہا جبکہ اتوار کے روز پولیس نے آکر اسے ہسپتال منتقل کیا۔

ملزم کا اعترافی بیان اور تردید

واقعے کے مرکزی ملزم عبدالوحید کا پولیس کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا، 'اس نے اپنے مریدین کو گناہوں سے پاک کرکے جنت بھیجا ہے'۔

مزید پڑھیں: سرگودھا: 20 مریدین کے قاتل متولی نے اعترافی بیان واپس لے لیا

گرفتاری پر عبدالوحید بضد تھا کہ اس کے مریدوں نے گناہوں سے پاک کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی دینے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ایک موقع پر وحید کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اسے شک تھا کہ مرید اسے مارنے آئے ہیں۔

بعدازاں مرکزی ملزم عبدالوحید نے اعترافی بیان واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے جبکہ اس کے مریدین نے ایک دوسرے کو خود ہی قتل کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں