سندھ ہائیکورٹ کا پولیس ریکارڈ آفس میں 'چہرے کے شناختی نظام' کی تنصیب کا حکم

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2019
جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کے ایم سی کس حیثیت میں شہر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا انتظام سنبھال رہا ہے؟—فائل فوٹو: پی پی آئی
جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کے ایم سی کس حیثیت میں شہر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا انتظام سنبھال رہا ہے؟—فائل فوٹو: پی پی آئی

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کے کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) میں چہرے کی شناخت کے نظام کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، صوبائی پولیس افسر اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ سی آر او کو خصوصی طور پر سروسز فراہم کی جائیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس صلاح الدین پنھور پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس کی مدد سے تمام مفرور ملزمان کو عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔

مزیدپڑھیں: سپریم کورٹ کا 33 ہزار مفرور ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم

علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کرلی، جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کس حیثیت میں صوبائی دارالحکومت میں نصب کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کا انتظام سنبھال رہا ہے؟ جبکہ یہ کام مکمل طور پر سیکریٹری داخلہ کے امور میں آتا ہے۔

دوران سماعت اے کلاس مقدمات کا معاملہ زیر بحث آیا، جس میں ملزم نامعلوم یا اس کی کھوج ناممکن ہوتی ہے، تو اے کلاس مقدمات سے متعلق سی آر او کے انچارج، پولیس افسران اور محکمہ قانون کے ایک افسر نے رپورٹس جمع کرائی۔

اس موقع پر جسٹس صلاح الدین نے سی آر او کے اس کام کرنے کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کیا کہ جس میں ایک عہدیدار نے تسلیم کیا کہ محکمہ پولیس میں کسی ویڈیو سے کسی کے چہرے کی شناخت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ طریقہ کار صرف نادرا کے پاس موجود ہے جبکہ سی آر او سسٹم میں مذکورہ نظام کی سہولت کا فقدان ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نادرا کے ساتھ ریکارڈ رکھنے کا مقصد صرف اور صرف سی این آئی سی کے اجرا تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد کسی مطلوبہ شخص کی شناخت جاننا بھی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مختلف نوعیت کے جرائم میں پرویز مشرف سمیت 3 ہزار ملزمان مفرور

جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ صوبائی ہوم سیکریٹری اور ڈی جی نادرا کو پابند بنائیں کہ یہ میکانزم خصوصی طور پر سی آر او میں دستیاب ہو جس میں مجرموں کی شناخت کو یقینی بنایا جاسکے۔

بینچ نے ڈی آئی جی سی آئی اے اور اے آئی جی فرانزک کو بھی ہدایت کی کہ وہ عدالت میں معاونت کرنے والے 3 وکلا اور ایک ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو تفصیلات فراہم کریں کہ سی آر او کو ملزموں کی شناخت کا کیا میکانزم فراہم کیا گیا اور ساتھ ہی فرانزک کا طریقہ بھی وضع کریں۔

عدالت نے اے آئی جی فرانزک کو بھی ہدایت کی کہ فرانزک لیبارٹریز میں دستیاب مجرموں کے ڈی این اے کی مکمل تفصیلات درج کریں۔

واضح رہے گزشتہ سماعت میں بینچ نے ریمارکس دیے تھے کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ رینجرز کو اس معاملے میں اعتماد میں لیا جائے، ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کیا جائے، امید ہے کہ گھناؤنے جرائم کے مجرموں کی نشاندہی میں رینجرز کے کردار سے مثبت نتائج سامنے آئیں گے'۔

تاہم اس کے بعد مکمل رپورٹ کے ساتھ کوئی بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوا جس پر بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ دوبارہ ڈی جی رینجرز کو اس ضمن میں حکم سے آگاہ کریں اور ڈی جی رینجرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس کی مد سے تمام مفرور ملزمان کو عدالتوں کے سامنے پیش کریں۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد: پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مقدمہ درج

اس موقع پر محکمہ قانون کے دو عہدیداروں نے یقین دلایا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے وضع کردہ سندھ فوجداری عدالتی قواعد 2012 کے اصولوں کو شائع کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ایس ایچ سی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

جس کے بعد بینچ نے عدالت کے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ ان قوانین کو محکمہ قانون تک پہنچائیں جو یقینی بنائے گا کہ اس طرح کا گزٹ مقررہ وقت کے اندر شائع ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں