زبیدہ مصطفیٰ۔
زبیدہ مصطفیٰ۔

یہ کچھ عرصے پہلے کی بات ہے جب معلوم ہوا کہ پنجاب کی نصابی کتب میں بلوچ قوم کو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’یہ غیر مہذب لوگ ہیں جو قتل اور لوٹ مار کرتے تھے‘۔

کتابوں میں موجود یہ مجرمانہ نقص 3 سال پہلے اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کو اس کا علم ہوا اور انہوں نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اس معاملے کو بھرپور انداز میں اٹھایا۔

مجھے نہیں معلوم کہ اب تک کتب میں شامل اس بیمار اور متعصب ذہنیت کی پیدا کردہ تشریح کو درست کیا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ نصابی کتب کے لکھاری یہ ذکرِ خیر کرنا بھول ہی گئے کہ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل اس چھوٹی سی آبادی نے کم شرح خواندگی کے باوجود کس قدر ممتاز دانشوروں کو جنم دیا۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچ سیاسی و سماجی کارکنان کو شکوہ رہتا ہے کہ ان کی ثقافتی شناخت اور زبان کو مسخ شدہ تشریحات سے جوڑا جارہا ہے اور ان کے دانشوروں کو مارا جا رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو یہ ان بربریت پھیلانے والوں پر حملہ آور ہونے کا طریقہ رہا ہے جو علم سے ڈرتے اور اسے تباہ کرنے کا قصد کرتے تھے۔

میرے لیے کراچی کے علاقے ملیر میں واقع سید ہاشمی ریفرنس لائبریری جانا انتہائی حوصلہ افزا تجربہ رہا۔ اپنی تمام عمر بلوچی زبان کو وقف کردینے والے سید ظہور شاہ ہاشمی (1978ء-1926ء) سے منسوب یہ کتب خانہ ’بلوچستان، بلوچ اور بلوچی‘ سے متعلق علم کا ایک خزانہ ہے۔ بلکہ اس لائبریری کے صدر ڈاکٹر رمضان بمری نے مجھے ایک تشہیری پرچہ دیا جس میں تو اسے ’سفرِ بلوچولوجی‘ پکارا گیا ہے۔

میں نے اس سے پہلے کبھی یہ لفظ نہیں سنا تھا لیکن جب میں لائبریری پہنچی اور وہاں موجود خزانے کو دیکھا تب مجھے احساس ہوا کہ اس زبان کے پاس جتنا علم ہے وہ اسے بیان کرنے کے لیے ایسی اصطلاح کے استعمال کے تمام تقاضوں پر پورا اترتی ہے۔

مجھے ڈاکٹر بمری سے پتا چلا کہ اس لائبریری میں بلوچستان کے موضوع پر بلوچی زبان اور دیگر زبانوں میں لکھی جانے والی 25 ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ 1951ء سے لے کر اب تک پورے ملک میں بلوچی زبان میں شائع ہونے والے تمام جریدوں کو یہاں جمع کیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ان جریدوں کی تعداد 30 تھی مگر اس وقت صرف ایک ہی جریدہ نکلتا ہے۔

خود یہ کتب خانہ مشقتِ محبت کی مثال ہے۔ بلوچی زبان سے محبت کی مثال ہے۔ معروف شاعر صبا دشتیاری نے 2003ء میں اس لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے ناصرف اپنی کتابوں کی کلیکشن عطیہ کی بلکہ بلوچستان یونیورسٹی میں بطور پروفیسر ملازمت کے دوران ملنے والی تنخواہ کا نصف حصہ بھی اس سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری کو عطیہ کرتے رہے، لیکن پھر 2011ء میں ان کے قتل کے ساتھ ہی یہ سلسلہ تھم گیا۔

مجھے یہ جان کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ اس شہر میں چند دیگر بلوچ کتب خانے بھی موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک صدیق ولیج میں واقع امام بخش بلوچ میموریل لائبریری دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا جہاں لائبریری انچارج اکبر ولی آرٹس اینڈ تھیٹر گروپ کے ساتھ ساتھ ایک فٹ بال ٹیم کو بھی تربیت فراہم کرتے ہیں۔

اس قسم کے ادارے علم و دانش اور ثقافتی سرگرمیوں کا اکثر مرکز بن جاتے ہیں۔ اس سب کے علاوہ ولی علاقے کے بچوں کے لیے کلاسز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

لیاری میں بلوچ نوجوانوں کے لیے 3 کتب خانے موجود ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ’ایک زمانے میں یہاں 27 کتب خانے ہوا کرتے تھے‘۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ایک بار پھر لیاری میں بک کلچر بحال کرنے کے لیے پُرعزم ہیں جسے گینگ وار کے تشدد بھرے ماحول نے تباہ کردیا تھا۔ علمی سرگرمیوں کے لیے ان کے اٹل ارادے بے مثال ہیں۔ بلوچستان اور ملک میں موجود بلوچ اکثریتی علاقوں میں ہر سال تقریباً 50 کتابیں بلوچی زبان میں شائع ہوتی ہیں۔

چونکہ بلوچی بولنے والے پورے ملک بلکہ بلوچستان میں بھی کافی بکھرے ہوئے ہیں اس لیے حقیقی چیلنج ان کتابوں کی تقسیم ہوتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی اور تربت یونیورسٹی ملک کی وہ 2 یونیورسٹیاں ہیں جہاں بلوچی زبان اور ادب کے باقاعدہ شعبے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق اور دانشورانہ سرگرمیوں کے لیے وقف متعدد ادارے بھی موجود ہیں، جن میں سب سے بڑا ادارہ باقی بلوچ اکیڈمی ہے۔

ستمبر میں لیاری میں منعقد ہونے والا 2 روزہ بلوچی ادبی میلہ دانشورانہ ماحول میں عوامی دلچسپی کا منہ بولتا ہے۔ میلے کے منتظمین نے قریب 168 بلوچی زبان کے لکھاریوں اور مصنفین کو بطور پینلسٹ شرکت پر قائل کیا۔

علم و دانش کے اس قدر قیمتی ورثے کے باوجود بلوچستان میں کم شرح خواندگی (41 فیصد) اور اسکولوں میں بچوں کے داخلے کے تناسب کی کمی کی وجہ کیا ہے؟

درحقیقت حصولِ تعلیم کے محدود مواقع اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت تعلیمی میدان میں کسی بھی بہتری کو مستقل روکے ہوئے ہے۔ تعلیمی درجے کی سالانہ رپورٹ میں بلوچستان کے معیارِ تعلیم کی ریٹنگ کچھ خاص نہیں، جبکہ سب سے اہم اور سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جا رہی، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پڑھنے میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔

لیاری کی ہی مثال لیجیے۔ 10 لاکھ کی آبادی والے اس علاقے میں 120 سرکاری اور 300 نجی اسکول موجود ہیں۔ دوسری طرف یہاں 120 مدرسے بھی ہیں جہاں طلبا کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ لوگوں کا جھکاؤ کس طرف ہوگا؟ وہ بچے اور ان کے والدین شاباشی کے مستحق ہیں کہ جو مشکلات کے باوجود اسکولوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنے حوصلے بُلند اور تعلیم پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچی زبان پڑھانے والے اور وسیع مطالعے کے حامل پروفیسر واحد بخش بزدار علم و دانش سے جڑے مسائل کی خوب آگاہی اور سمجھ رکھتے ہیں۔ واحد بخش بلوچستان کے معیارِ تعلیم سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ’تعلیم کو سیاسی اور کمرشل پیرائے میں ڈھالنے سے صورتحال کہاں ٹھیک ہونی ہے‘۔ اس کے علاوہ ’مذہبی اداروں کی اجارہ داری تنقیدی سوچ اور فکر کا گلا گھونٹتی جارہی ہے۔‘

یہ ساری باتیں بلوچستان میں پھیلی اس بے چینی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں جسے حکومت بزور بازو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کیا اس معاملے میں وردی میں ملبوس سپاہیوں کے مقابلے میں وژن و لگن کے حامل تعلیمی اصلاح کار اور مؤثر غربت مٹاؤ پروگرام کی خدمات زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گی؟


یہ مضمون 6 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں