بخارا، اسلامی تہذیب و تمدن کا امین شہر

بخارا، اسلامی تہذیب و تمدن کا امین شہر

تحریر و تصاویر: احمد شاہین

ایک طویل عرصے تک اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر پہچانے جانے والا شہر، بخارا، ازبکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔

بخارا جسے اسلامی تہذیب و تمدن میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ آج بھی یہاں کئی مساجد اور مدرسے قائم ہیں لیکن شہر کا سب سے بڑا تعارف امام بخاری ہیں۔ ان کی کتاب صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ یہیں پیدا ہوئے اور پھر علم کے حصول کے لیے کئی مقامات کے دورے کئے۔

یہ شہر چنگیز خان کی بربریت کا نشانہ بھی بنا جس کے بعد مختلف ادوار میں یہ چغتائی سلطنت، تیموری سلطنت اور خان بخارا کی حکومت میں شامل ہوا۔

ازبکستان کے معروف تاریخی شہر اور ماضی کی سلطنت خوارزم کے صدر مقام خیوا سے بخارا کا راستہ تقریباً 450 کلومیٹر ہے جو ہم نے براستہ سڑک 7 گھنٹے میں طے کیا اور پھر کچھ دیر تازہ دم ہونے اور پیٹ پوجا کے بعد شہر کی سیر کے لیے روانہ ہوئے۔

قدیم شاہراہِ ریشم کا اہم مقام ہونے کی وجہ سے بخارا صدیوں سے ہی تجارت اور ثقافت کا محور رہا ہے۔ یہاں جابجا تاریخی مقامات اور یادگاریں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو نے بھی بخارا کے مرکز کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

یوں تو بخارا شہر اب کافی پھیل چکا ہے لیکن یہاں دیکھنے کے لائق تاریخی عمارتیں اور یادگاریں شہر کے مرکز ہی میں ہیں۔ پرانے وقتوں میں اصل شہر بھی یہی تھا، پھر وقت کے ساتھ اور ضرورت کے مطابق شہر بڑھتا چلا گیا۔

بخارا شہر کا مرکزی مقام ’پوئی کلیان اسکوائر‘ ہے، جو 3 اطراف سے عظیم الشان تاریخی ورثے سے گھرا ہوا ہے۔ خدائے برحق کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے پرشکوہ مسجد، علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے شاندار مدرسہ اور ان دونوں عمارتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے والوں کی عظمت بیان کرتا بلند و بالا مینار، یہ سب ہی کچھ بلاشبہ متاثر کن ہے۔

بخارا شہر کا مرکزی مقام ’پوئی کلیان اسکوائر‘ ہے، جو 3 اطراف سے عظیم الشان تاریخی ورثے سے گھرا ہوا ہے
بخارا شہر کا مرکزی مقام ’پوئی کلیان اسکوائر‘ ہے، جو 3 اطراف سے عظیم الشان تاریخی ورثے سے گھرا ہوا ہے

بخارا شہر یوں تو اب کافی پھیل چکا ہے لیکن یہاں دیکھنے کے لائق تاریخی عمارتیں اور یادگاریں شہر کے مرکز ہی میں ہیں
بخارا شہر یوں تو اب کافی پھیل چکا ہے لیکن یہاں دیکھنے کے لائق تاریخی عمارتیں اور یادگاریں شہر کے مرکز ہی میں ہیں

یہاں موجود وسیع و عریض اور خوبصورت تاریخی مسجد کا نام کلیان مسجد ہے۔ اس مسجد کو سن 1514 میں تعمیر کیا گیا اور یہاں 12 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ مسجد تیموری دور کے منفرد طرزِ تعمیر کی خوبصورت مثال ہے۔ مسجد کے دونوں اطراف 2 بڑے، نیلے رنگ کے دیدہ زیب گنبد موجود ہیں جبکہ مسجد کے اندرونی صحن کے اطراف میں 208 ستون اور 280 سے زائد چھوٹے گنبد موجود ہیں جو اس مسجد کو دیگر روایتی مساجد سے منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک یہ مسجد بخارا کی مرکزی مسجد کے طور پر جانی جاتی رہی ہے اور یہاں عیدیں و جمعہ کی نماز کے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے رہے ہیں۔

کلیان مسجد کے بالکل سامنے، میر عرب مدرسہ موجود ہے۔ مدرسہ کی تعمیر یہاں کے حکمران عبیداللہ خان کے حکم سے سن 1535 میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ عبید نے اس وقت کے معروف عالم دین، شیخ عبداللہ یمنی کے لیے تعمیر کروایا تاکہ وہ بڑے پیمانے پر اسلامی تعلیمات کا پرچار کرسکیں اور عوام کی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست ہوسکے۔

مسجد کے دونوں اطراف 2 بڑے، نیلے رنگ کے دیدہ زیب گنبد موجود ہیں
مسجد کے دونوں اطراف 2 بڑے، نیلے رنگ کے دیدہ زیب گنبد موجود ہیں

اس 2 منزلہ مدرسے میں 114 حجرے جبکہ 4 ایوان اور 2 بڑے ہال بھی موجود ہیں۔ ایک ہال کو عبادات اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ہال میں عبیداللہ خان، شیخ عبداللہ یمنی اور دیگر کے مقبرے موجود ہیں۔

مدرسے سے متعلق نہایت اہم بات یہ ہے کہ دیگر کئی تاریخی مدارس کے برعکس اس مدرسے میں آج بھی تدریس کا عمل جاری ہے اور یہاں بچوں اور نوجوانوں کو دینی علوم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ گائیڈ کے توسط سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ مدرسہ ان چند مدارس میں شامل تھا جہاں تدریس کا سلسلہ سویت دور میں بھی منقطع نہیں ہوا۔

پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے۔ تقریباً 9 صدی پرانا یہ بلند مینار شہر کی پہچان ہے۔ مینار کی اونچائی تقریباً 50 میٹر ہے اور اس کے اوپر جانے کے لیے 148 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، جو یقیناً ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اوپر پہنچ کر، یہاں سے شہر کا نظارہ لاجواب ہے۔

پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے
پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے

تقریباً 9 صدی پرانا یہ بلند مینار شہر کی پہچان ہے
تقریباً 9 صدی پرانا یہ بلند مینار شہر کی پہچان ہے

چنگیز خان کے حملے سے متعلق ایک روایت یہ بھی معروف ہے کہ وہ وسطی ایشیا کے دیگر کئی علاقوں کی طرح بخارا بھی آیا، دل کھول کر قتل و غارت کی، لیکن جب کلیان مینار پر پہنچا تو اس کا شکوہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا۔ وہ اس مینار کے جاہ و جلال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے جنگجوؤں کو کلیان مینار کو چھوڑ دینے کا حکم دیا اور یہاں سے کہیں اور کوچ کرگیا۔

اس دلچسپ روایت سے متعلق جب گائیڈ سے پوچھا تو اس نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور معذرت بھی کی۔ یہی بات جب مینار کی سیڑھیوں کے قریب بیٹھے ایک بزرگ دربان سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ شرما کر بولے کہ میں اس حملے کے وقت ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس بات پر قہقہے بلند ہوئے اور ہم ازبک لوگوں کی زندہ دلی کے مزید معترف ہوگئے۔

بخارا صدیوں سے تہذیبی اور ثقافتی مرکز تو رہا ہی ہے لیکن اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے اہم مقام پر موجود ہونے کے سبب، تجارتی قافلے یہاں آتے، منڈیاں سجتی اور خوب خرید و فروخت ہوتی۔ یہ روایت آج بھی چلی آرہی ہے۔

بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاح یہاں مقامی طور پر بنی اشیا میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ ازبکستان کے دیگر ٹؤرسٹ مقامات کی طرح یہاں بھی لگائے جانے والے اسٹالز اور موجود دکانوں کا انتظام خواتین نے ہی سنبھال رکھا ہے اور اکثر خواتین کے ساتھ ان کے بچے بھی ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں۔

بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے
بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے

اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے
اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے

ازبکستان کی سیر اور یہاں کے مقامی افراد سے گپ شپ کے دوران ایک مشاہدہ یہ ہوا کہ یہاں مرد، خواتین اور بچے سب ہی کسی نہ کسی معاشی سرگرمی کا حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود، یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں شرح خواندگی 99 فیصد سے زائد ہے۔ جی ہاں، یعنی کام کاج کے ذریعے اپنے خاندان کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور صرف ازبکستان ہی نہیں بلکہ سویت یونین سے الگ ہونے والی بیشتر ریاستوں میں تعلیمی اعداد و شمار متاثر کن ہیں۔

کام اور پڑھائی ساتھ ساتھ والا ’وائرس‘ غالباً سویت دور ہی کی نشانی ہے جب گھر کے تمام افراد کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی تعلیم کا بھی بندوبست، ریاست کی ذمہ داری تھی۔

بخارا میں ہماری گائیڈ کی ذمہ داری انجام دینے والی ’ہلولہ‘ بھی اسی ’وائرس‘ سے متاثر نظر آئیں۔ یہ بخارا ہی کی ایک یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کی اسٹوڈنٹ ہیں اور اپنی کلاسز کے بعد ایک مقامی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ چھٹی والے دن یا جس دن کلاسز نہ ہوں تو یہ سیاحتی مقامات پر گائیڈ کے فرائص سرانجام دیتی اور یہاں آنے والے مہمانوں کو اپنے شہر کی سیر کروا کر خوشی محسوس کرتی ہیں۔

ہلولہ کے نام کے متعلق ابتدا میں تو کافی دیر شش و پنج رہی، لیکن بعد میں کچھ بے تکلفی ہوئی اور گپ شپ کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا یہ نام ’ہلال‘ یعنی چاند سے نکلا ہے اور ازبکستان کے مخصوص لہجہ اور تلفظ کی وجہ سے ہلولہ بن گیا۔ ورنہ ازبکستان میں جتنے بھی افراد سے ملاقات ہوئی، اکثر نام بالکل بھی نامانوس نہیں لگے۔

تاریخی طور پر بخارا ایک طویل عرصے تک مختلف فنون اور مہارتوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں کی تعمیراتی یادگاروں کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والے افراد کی محنت اور کاریگری بھی کسی سے کم نہیں۔ بخارا کے قدیم شہر میں موجود ’سلک کارپٹ فیکٹری‘ جانے کا بھی موقع ملا جہاں کے ہاتھ سے بنے قالین کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔ یہ فیکٹری ابھی تک دستکاری کے قدیم ورثہ کو سنبھالے ہوئے ہے۔

بخارا کے قدیم شہر میں موجود ’سلک کارپٹ فیکٹری‘ جانے کا بھی موقع ملا
بخارا کے قدیم شہر میں موجود ’سلک کارپٹ فیکٹری‘ جانے کا بھی موقع ملا

یہاں بننے والے قالین کی پوری دنیا میں مانگ ہے
یہاں بننے والے قالین کی پوری دنیا میں مانگ ہے

بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہے۔ اس اہم فن کے راز کو نسل در نسل نہایت جانفشانی کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ ابتدا میں صرف مرد ہی یہ کام کرسکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس ہنر کی تعلیم خواتین کو بھی دی گئی، اور پھر انہوں نے اپنی ذہانت اور لگن سے اس فن میں اس حد تک مہارت حاصل کرلی کہ پھر یہ کام فقط خواتین کے لیے ہی مختص ہوگیا۔ آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔

بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہے
بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہے

آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں
آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں

لیکن اب بھی ایک فن ایسا ہے جس کے لیے مرد ہی زیادہ موزوں ہیں۔ لوہے اور مختلف دھاتوں کو محنت اور مہارت سے مختلف شکلوں میں ڈھالنے اور پھر استعمال میں لانے کا ہنر۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ ہنر بھی بخارا کے قدیمی شہر کا ورثہ ہے اور آج بھی یہاں ایسے کارخانے موجود ہیں جہاں ماہر کاریگر اس فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کارخانوں میں سیاحوں کے لیے خصوصی سیشنز کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ یہ اس فن کے تمام مراحل کا بخوبی مشاہدہ کرسکیں۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے سیاح لوہے پر پڑتی ضربوں کو غور سے دیکھتے اور اس سے بننے والی اشیا کو حیرت سے تکتے نظر آتے ہیں۔

بخارا کے اس قدیم شہر میں دیکھنے کے لائق مقامات اور سرگرمیاں اتنی ہیں کہ یہاں سیر کے لیے محض ایک دن کافی نہیں۔ چناچہ رات بخارا ہی میں رکنے کا پروگرام بنا تاکہ نہ صرف اگلا پورا دن پھر بخارا کے نام کیا جائے بلکہ یہاں کی رات سے بھی لطف اندوز ہوا جائے۔

کسی بھی شہر کو اچھی طرح سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے رات سے بہتر وقت نہیں۔ ایسا وقت جب سیاحوں کی اکثریت اپنے ہوٹل کے کمروں میں دبک جائے اور مقامی لوگ بھی دن بھر کی تھکن اتارنے کے لیے اپنے گھروں کا رخ کریں۔ ایسے میں کسی گائیڈ اور نقشے کے بغیر، لوگوں کے ہجوم سے پاک، گلیوں اور چوباروں میں مٹر گشت کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔

بخارا میں رات کے ایسے راہی، مختلف علاقوں کی آوارہ گردی کے بعد ’لب حوض اسکوائر‘ میں جمع ہوجاتے ہیں، جہاں کے نظارے اور پُرسکون ماحول تھکان اتارنے کے لیے کافی ہے۔ حوض کے اردگر کرسیاں اور میزیں پڑی ہیں جہاں بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ کی جاسکتی اور ساتھ ازبک چائے یا قہوہ کے دور بھی چلتے ہیں۔

16ویں صدی سے آباد یہ چوک تاریخی طور پر مسافروں کی آرام گاہ رہا ہے۔ طویل مسافتوں سے آنے والے افراد، تالاب کے کنارے کچھ دیر سستا لیتے یا یہاں موجود سرائے میں رہائش اختیار کرتے۔ ایک قدرے بڑے سائز کے تالاب کے گرد موجود یہ اسکوائر چاروں طرف سے تاریخی اور خوبصورت عمارت میں گھرا ہے جن میں کوکلداش مدرسہ، نادر دیوان مدرسہ و خانقاہ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ جگہ دن کے ساتھ ساتھ رات میں بھی آباد رہتی ہے۔ ہم نے بھی کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں موجود ایک ایسے کیفے کا انتخاب کیا جو کسی زمانے میں سرائے تھا اور اب جدید تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق کیفے میں ڈھل چکا ہے۔

کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں موجود ایک ایسے کیفے کا انتخاب کیا جو کسی زمانے میں سرائے تھا
کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں موجود ایک ایسے کیفے کا انتخاب کیا جو کسی زمانے میں سرائے تھا

لوگوں کے ہجوم سے پاک، گلیوں اور چوباروں میں مٹر گشت کرنے کا اپنا ہی مزا ہے
لوگوں کے ہجوم سے پاک، گلیوں اور چوباروں میں مٹر گشت کرنے کا اپنا ہی مزا ہے

کسی بھی شہر کو اچھی طرح سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے رات سے بہتر وقت نہیں
کسی بھی شہر کو اچھی طرح سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے رات سے بہتر وقت نہیں

رات تاخیر سے سونے کے باوجود صبح آنکھ خلاف معمول جلد کھل گئی جس کی وجہ غالباً رات ہوٹل میں داخل ہونے کے بعد کاونٹر پر کھڑی خاتون کا یہ بتانا تھا کہ کمپلیمنٹری ناشتے کا وقت صبح 8 سے ساڑھے 9 بجے ہے جس کے بعد ناشتہ مانگ کر ہمارے اسٹاف کو شرمندہ مت کریں۔

خیر جلد اٹھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ تیار شیار ہوکر وقت سے پہلے ہی ہوٹل کے بالکل سامنے ایک ہال نما کمرے میں پہنچ گئے جہاں ناشتہ لگ چکا تھا۔ ناشتہ میں وہ تمام اشیا موجود تھیں جو برٹش بریک فاسٹ کا خاصا ہیں لیکن انہیں ازبک ’ٹچ‘ دینے کے لیے یہاں کی مقامی و روایتی اشیا بھی موجود تھیں۔

ناشتے کے دوران ہی ہال کی ہیئت پر غور کیا تو عمومی کمروں سے کچھ الگ محسوس ہوا۔ مزید غور کیا تو ہال کے ایک کونے میں ’محراب‘ بھی نظر آگئی اور یہ عقدہ کھلا کہ یہ جگہ پہلے نماز کے لیے مختص تھی جسے ڈائننگ ہال کی صورت دی جاچکی ہے۔ وہاں موجود اسٹاف سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ہماری حیرانگی پر کندھے اچکا کر بولا کہ ’ایسا تو یہاں نارمل ہے۔ قدیم دور میں مساجد و مدارس اس قدر زیادہ بنائے گئے تھے کہ یہ موجودہ ضرورت سے زیادہ ہیں اس لیے کچھ عمارتوں کو دیگر کاموں کے لیے استعمال میں لایا گیا ہے۔ جتنے افراد کو نماز کے لیے مساجد یا مدارس کی ضرورت ہے اتنی موجود ہیں، سو اس میں کچھ اچھنبا نہیں‘۔

ناشتے کے دوران ہی ہال کی ہیئت پر غور کیا تو عمومی کمروں سے کچھ الگ محسوس ہوا
ناشتے کے دوران ہی ہال کی ہیئت پر غور کیا تو عمومی کمروں سے کچھ الگ محسوس ہوا

کچھ ایسے ہی مشاہدات ہم خیوا میں بھی کرچکے تھے اور ملتے جلتے جوابات ہی ملے تھے اس لیے زیادہ کریدنے اور مزید معلومات حاصل کرنے سے باز رہے۔

خیر، آج کے دن کا سب سے اہم کام، قلعہ بخارا کی سیر تھی۔ ’آرک فورٹرس‘ یا ’بخارا آرک‘ کے نام سے معروف یہ قلعہ بعض روایات کے مطابق پانچویں صدی میں تعمیر ہوا۔ بخارا کے اس قدیم اور وسیع و عریض قلعے کو کئی بار شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ کتنی ہی بار یہ تباہ ہوا اور کتنی ہی بار اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔

قلعے کو دفاعی ضروریات کے علاوہ بخارا کے حکمرانوں کی ذاتی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال میں لایا جاتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس قلعے میں علمی اور تحقیقی سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری رہتی تھیں۔

محققین کے مطابق یہاں مختلف ادوار میں جن معروف شخصیات نے خدمات سرانجام دیں ان میں فردوسی، الفارابی، ابن سینا اور عمر خیام کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ابن سینا کے مطابق قلعہ میں نایاب کتب پر مشتمل ایک بڑی لائبریری بھی موجود تھی، لیکن افسوس کہ بار بار جنگ و جدل کا سامنا کرنے کے باعث، آج اس قیمتی لائبریری کا نشان تک مٹ چکا ہے۔ لیکن بہرحال اس تاریخی قلعے میں آج بھی دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

آج کے دن کا سب سے اہم کام، قلعہ بخارا کی سیر تھی
آج کے دن کا سب سے اہم کام، قلعہ بخارا کی سیر تھی

قلعے کو دفاعی ضروریات کے علاوہ بخارا کے حکمرانوں کی ذاتی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال میں لایا جاتا تھا
قلعے کو دفاعی ضروریات کے علاوہ بخارا کے حکمرانوں کی ذاتی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال میں لایا جاتا تھا

تاج پوشی کے لیے مختص ہال اور استقبالیہ قلعے کا وہ سب سے قدیم خوش نصیب حصہ ہے جو سن 1920 میں یہاں روس کی جانب سے کی جانے والی بمباری میں محفوظ رہا البتہ اس کی چھت منہدم ہوگئی۔ اب اس وسیع قلعے کے بیشتر حصے کو محفوظ کرنے کی غرض سے میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے، جہاں صرف اس قلعے کے بارے ہی میں نہیں بلکہ بخارا، ازبکستان، اس خطہ ارضی اور یہاں کے رہن سہن کے حوالے سے بھی دلچسپ اشیا اور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

قلعے میں چہل قدمی کرتے یقینی طور پر اس پُرشکوہ دور کی یادیں تازہ ہوتی ہیں جب قلعے کے مختلف حصے ان کے اصل مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہیں پر حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں کی رہائش گاہیں، امورِ سلطنت چلانے کے لیے ضروری دفاتر اور دشمن سے بچاؤ کے لیے دفاعی انتظامات موجود تھے۔ قلعے میں 3 ہزار سے زائد افراد کی رہائش کا بندوبست تھا۔ گویا یہ قلعہ، بخارا شہر کے بیچوں بیچ ازخود ایک بھرپور شہر تھا۔

اس وسیع قلعے کے بیشتر حصے کو محفوظ کرنے کی غرض سے  میوزیم کی شکل دے دی گئی
اس وسیع قلعے کے بیشتر حصے کو محفوظ کرنے کی غرض سے میوزیم کی شکل دے دی گئی

مسلم حکمرانوں کے دور میں قلعے کے اندر جامعہ مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ یہ قدیم مسجد اگرچہ اب نماز اور عبادت کے لیے زیرِ استعمال نہیں لیکن اس جگہ کو اب نہایت خوبصورتی سے اسلامی نوادرات سے متعلق میوزیم میں ڈھال دیا گیا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے قدیم اور نایاب نسخے موجود ہیں جنہیں یہاں آنے والے عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان نادر اور مقدس اوراق کو مختلف ادوار میں، سلطنت کے مختلف حصوں سے جمع کیا گیا اور اب اس اہم اسلامی اور علمی ورثہ کو محفوظ کرنا یقینا خوش آئند ہے۔

اس جگہ کو اب نہایت خوبصورتی سے اسلامی نوادرات سے متعلق میوزیم میں ڈھال دیا گیا ہے
اس جگہ کو اب نہایت خوبصورتی سے اسلامی نوادرات سے متعلق میوزیم میں ڈھال دیا گیا ہے

یہاں قرآن کریم کے قدیم اور نایاب نسخے موجود ہیں
یہاں قرآن کریم کے قدیم اور نایاب نسخے موجود ہیں

قلعہ کی سیر اور یہاں کافی وقت صرف کرکے باہر نکلے تو دروازے کے قریب ہی قدرے وسیع جگہ پر 3 بچے فٹبال کے ساتھ اٹھکیلیاں کررہے تھے۔ ہم کچھ قریب پہنچے تو ہمیں دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ہم نے بھی جوابی مسکراہٹ بھیجی تو فوراً فٹبال کو کک مار کر ہمارے قریب پھینکا اور کھیل کی دعوت دی۔ سو کچھ دیر ان کے ساتھ کھیل میں مصروف رہے اور پھر ہاتھ ملا کر اپنی راہ ہولیے۔

یہاں کے لوگوں کی ملنساری اور خوش دلی اچھی محسوس ہوتی ہے، ابھی یہاں ہر چیز میں کمرشل ازم نہیں، سو خوشی اور مسکراہٹ بھی مصنوعی نہیں، وگرنہ اکثر ٹؤرسٹ مقامات پر اگر کوئی مسکرا کر دیکھے تو عموماً اس کی ایک آنکھ سیاح کی جیب پر ہی ہوتی ہے۔

خیر یہاں سے ہم نے سڑک پار کی اور قلعے کے بالکل سامنے ’بولو حوض مسجد‘ پہنچ گئے۔ یہ تاریخی مسجد 1712 میں، بخارا کے امیر کی جانب سے تعمیر کروائی گئی۔

مسجد کا طرزِ تعمیر اگرچہ سادہ ہے لیکن پھر بھی یہ خوبصورتی اور جاذبیت میں کسی اور مسجد سے کم نہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک خواص اور عوام کے زیرِ استعمال رہنے والی یہ مسجد آج بھی عبادت کے لیے کھلی ہے۔ اسے 40 ستونوں والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے عین سامنے ایک حوض ہے اور مسجد کے برآمدے میں لکڑی کے 20 ستون نصب ہیں۔ دُور سے دیکھنے پر ان ستونوں کا عکس پانی میں نظر آتا تو 40 ستون دکھائی دیتے۔ اس طرح اس کا نام 40 ستونوں والی مسجد پڑگیا۔ یہ خوبصورت مسجد بھی بخارا کے دیگر تاریخی مقامات کے ساتھ، یونیسکو کے عالمی تاریخی ورثہ میں شامل ہے۔

یہاں سے ہم نے سڑک پار کی اور قلعے کے بالکل سامنے ’بولو حوض مسجد‘ پہنچ گئے
یہاں سے ہم نے سڑک پار کی اور قلعے کے بالکل سامنے ’بولو حوض مسجد‘ پہنچ گئے

مسجد کے عین سامنے ایک حوض ہے اور مسجد کے برآمدے میں لکڑی کے 20 ستون نصب ہیں
مسجد کے عین سامنے ایک حوض ہے اور مسجد کے برآمدے میں لکڑی کے 20 ستون نصب ہیں

مسجد سے نکل کر میزبانوں کے ہمراہ ایک مقامی ہوٹل پہنچے جہاں بخارا اور ازبکستان کے مقامی کھانے ہمارے منتظر تھے۔ شدید بھوک میں یہاں کے معروف بخاری پلاؤ اور گوشت سے بنے مقامی کھانوں نے خوب لطف دیا۔ ازبکستان یا پھر شاید پورے وسطی ایشیا میں کھانا صرف ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ ثقافت کا بھی اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں جس شہر بھی جانا ہوا اور جس جگہ بھی کھانے کے لیے بیٹھے، وہاں پکوانوں کی ورائٹی زیادہ ہونے کی وجہ سے خاصا وقت صرف ہوا جبکہ یورپ یا برطانیہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، جہاں کھانے پینے کا معاملہ 5 سے 10 منٹ میں ہی نمٹ جاتا ہے۔

شدید بھوک میں یہاں کے معروف بخاری پلاؤ اور گوشت سے بنی مقامی کھانوں نے خوب لطف دیا
شدید بھوک میں یہاں کے معروف بخاری پلاؤ اور گوشت سے بنی مقامی کھانوں نے خوب لطف دیا

ازبکستان یا پھر شاید پورے وسطی ایشیا میں کھانا صرف ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ ثقافت کا بھی اہم جزو تصور کیا جاتا ہے
ازبکستان یا پھر شاید پورے وسطی ایشیا میں کھانا صرف ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ ثقافت کا بھی اہم جزو تصور کیا جاتا ہے

کھانے کے بعد معلوم ہوا کہ اب ہمیں بخارا کا ایک اور رخ دکھانے، یہاں کے قدیم یہودی عبادت خانے لے جایا جائے گا۔ بخارا شہر صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا امین رہا ہے۔ یہاں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے اکٹھے رہتے رہے اور مل کر اس شہر کو عظیم بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

شہر میں تاریخی طور پر یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد صدیوں سے مقیم ہیں اور صدیوں ہی سے اس شہر میں آزادانہ اپنی عبادات اور دیگر معمولاتِ زندگی سرانجام دے رہے ہیں۔

بخارا کے قدیم شہر میں قائم اس یہودی عبادت خانے میں آج بھی باقاعدگی سے عبادتوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عبادت خانے کے اردگرد بھی یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی رہائش گاہیں ہیں جبکہ یہودی مذہب سے متعلق تاریخی نوادرات اور قدیم مقدس تورات کے نسخے بھی عبادت خانے میں موجود ہیں۔ یہاں ان معروف شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں کی گئی ہیں ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں اس عبادت خانے کا دورہ کیا۔ یہاں کے وزٹ کے دوران عبادت خانے کی دیکھ بھال کرنے والے پیشوا سے بھی ملاقات ہوئی اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ بخارا میں قائم یہ یہودی عبادت خانہ بلاشبہ شہر میں رواداری، یکجہتی اور برداشت کی اعلیٰ مثال ہے۔

بخارا کے قدیم شہر میں قائم اس یہودی عبادت خانے میں آج بھی باقاعدگی سے عبادتوں کا انعقاد کیا جاتا ہے
بخارا کے قدیم شہر میں قائم اس یہودی عبادت خانے میں آج بھی باقاعدگی سے عبادتوں کا انعقاد کیا جاتا ہے

یہاں سے واپسی کے لیے روانہ ہوتے ہوئے قدیم بازار میں پہنچے تو ایک عمارت پر نظر پڑی جس پر ’حمام‘ لکھا تھا۔ اگرچہ باہر سے عمارت بظاہر عام سی رہائش گاہ ہی محسوس ہورہی تھی لیکن اندر داخل ہوکر معلوم ہوا کہ یہ 14ویں صدی میں تعمیر ہونے والا حمام ہے جو اس وقت سے آج تک استعمال میں ہے۔

یہاں موجود افراد نے چیلنج کیا کہ آپ یہاں مساج کروائیں اور غسل کریں، تھکاوٹ شرطیہ اتر جائے گی اور جسم بھی ہلکا پھلکا محسوس ہوگا۔ ڈرتے ڈرتے ان کی بات مانی اور یقیناً فائدے ہی میں رہے۔ یہاں مساج کرنے والے، ترک حماموں کی طرح کے ’پہلوان‘ تو نہیں تھے، لیکن پھر بھی جسم کے کس بل نکالنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان میں سے اکثر، عرصے سے خاندانی طور پر یہی کام کررہے ہیں۔ تہ خانے میں پتھر کی سلوں پر گرم بھاپ اور پانی والے ازبک حمام کا تجربہ بہت زبردست رہا۔

بلاشبہ بخارا میں چہل قدمی کے دوران اس عظمت رفتہ کی شاندار تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے جب یہ شہر اور اس کے مختلف مقامات بھرپور علمی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتے تھے اور جب علم حقیقت میں امت مسلمہ کی میراث تھا۔ صرف بخارا ہی نہیں بلکہ موجودہ ازبکستان کے ہر ہر شہر میں علم، تہذیب، ثقافت اور اسلامی جاہ و جلال کی نشانیاں موجود ہیں اور یقیناً یہاں کا سفر ایک یادگار سفر ہے۔


لکھاری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔