مجھ پر امریکا کی پابندیاں مسئلہ کشمیر سے 'توجہ ہٹانے' کی سازش ہے، راؤ انوار

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر امریکی پابندیاں عائد کی گئی تھیں—فوٹو: ٹوئٹر
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر امریکی پابندیاں عائد کی گئی تھیں—فوٹو: ٹوئٹر

صوبہ سندھ میں محکمہ پولیس کے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے اپنے اوپر لگائی گئی امریکی پابندی پر کہا ہے کہ یہ 'مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے'۔

اپنے ایک ویڈیو پیغام میں راؤ انوار نے کہا کہ 'امریکا نے اتنا بڑا الزام پاکستان اور مجھ پر لگا دیا کہ یہاں اس طرح کے لوگ رہتے اور غلط کام کرتے ہیں'۔

راؤ انوار نے کہا کہ 'میں پولیس فورسز کا ایک ایس ایس پی تھا اور ہم دہشت گردوں سے لڑتے ہیں،400، 500 کے قریب یا 440 دہشت گرد تھے تو ان میں سے ایک کی بھی میرے خلاف شکایت نہیں ہے کہ میں نے کسی کو بھی کسی لالچ یا جعلی انکاؤنٹر کے تحت مارا ہے'۔

مزید پڑھیں: امریکا نے راؤ انوار سمیت 18 افراد پر پابندیاں عائد کر دیں

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میرے ہٹنے کے 2سال بعد بھی کوئی شکایت نہیں آئی'۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ 'اگر ایسی چیز نہیں ہے تو امریکا کو معافی مانگنی پڑے گی نہیں تو اس کو ثابت کرنا پڑے گا، میں اپنے وکیل کے ذریعے امریکا کے خلاف واشنگٹن میں کیس کروں گا اور سفارتخانے کو بھی خط لکھا جائے گا'۔

سابق ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ 'اس طرح ہمارے ملک کو بدنام کرنا، مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے'۔

اپنے ویڈیو پیغام میں سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ 'کوئی ایک ملزم بتادیں جس نے کہا ہو کہ میں ان کے ساتھ تعاون کرتا تھا، تو امریکا کیا مجھے پاکستان میں سزا دے دی جائے'۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'میرا کسی بھی ایک جرائم پیشہ سے کانٹریکٹ ہو تو پاکستان میں مجھے چوراہے پر کھڑا کرکے گولی ماردیں'۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں امریکا نے پاکستان میں جعلی پولیس مقابلوں کے لیے بدنام سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔

امریکی محکمہ خزانہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ملیر کے طور پر متعدد جعلی پولیس انکاؤنٹرز کے ذمہ دار ہیں جن میں پولیس کے ہاتھوں کئی افراد ہلاک ہوئے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار 190 سے زائد پولیس انکاؤنٹرز میں ملوث رہے جن میں 400 سے زائد اموات ہوئیں، جن میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد

امریکی محکمہ خزانہ نے کہا تھا کہ راؤ انوار نے پولیس اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹھگوں کے نیٹ ورک کی مدد کی جو مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، منشیات کی فروخت اور قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ راؤ انوار پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کی جارہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کے مبینہ طور پر قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائر ہوگئے تھے۔

نقیب اللہ کا قتل

13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا تھا،

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جھنگوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

مزید پڑھیں: پولیس افسر راؤ انوار ریٹائر

سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں تھی جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع بھی دیا گیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی تھی۔

عدالت میں زیرِ سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

تاہم ان کا نام ابھی بھی ای سی ایل میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں