آپ مصنف اور تاریخ دان ہیں۔
آپ مصنف اور تاریخ دان ہیں۔

ہماری موت کا سفر اس وقت ہی شروع ہوجاتا ہے، جب ہم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن جو موت مسلسل انسان کے ساتھ رہتی ہے، اور کبھی بھی زندگی پر غالب آسکتی ہے، اس کے باوجود انسان اسے بھلائے رکھتا ہے، اور اس سے ملاقات کے لیے کبھی کوئی تیاری نہیں کرتا۔

حال ہی میں امریکی ڈاکٹروں نے کچھ ایسی کتابیں شائع کروائی ہیں جو معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ تلقینی بھی ہیں۔ یہ کتابیں ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو زندگی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور موت کو سنجیدہ نہیں لیتا۔

2010ء میں سامنے آنے والی ڈاکٹر سدھارتھ مکھرجی کی کتاب The Emperor of All Maladies: A Biography of Cancer نے کینسر کو عوامی مقبولیت بخشی۔ اسی کتاب پر انہیں پولیٹزر پرائز (Pulitzer Prize) سے نوازا گیا۔

اس کتاب کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ’اس بیماری کی فصیح و بلیغ تاریخ پر مشتمل ہے جس کے ساتھ 5 ہزار سال سے بھی زائد عرصے سے انسان جیے بھی ہیں اور مرے بھی‘۔

ڈاکٹر مکھرجی کی دوسری اہم کتاب The Gene: An Intimate History ہے جو 2016ء میں سامنے آئی۔ اس کتاب میں ارسطو سے لے کر 21ویں صدی تک جین اور جینیاتی تحقیق کا جائزہ لیا گیا اور اس عرصے میں ہونے والی پیش رفتوں کی تاریخ کو سمویا گیا ہے۔ اس کتاب کو ان خواتین و حضرات کے لیے ہدایتی کتابچہ قرار دینا چاہیے جو کزن میرج کے حامی ہیں۔

ان کی ساتھی آنکولوجسٹ ڈاکٹر عذرا رضا پاکستان کا ایک ایسا سرمایہ ہیں جس پر امریکا قابض ہے۔ وہ نہ صرف طبّی تحقیق میں کمال مہارت رکھتی ہیں بلکہ انہیں اردو شاعری سے بھی گہرا شغف ہے۔ بقول ان کے ’مجھے اپنی پوری زندگی میں آج تک کسی ایسے علمی مسئلے یا سوال کا سامنا نہیں ہوا ہے جس کا جواب بالواسطہ یا بلاواسطہ غالب نے اپنے شاندار دیوان میں نہ دیا ہو‘۔

2019ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب Her book The First Cell: and the Human Costs of Pursuing Cancer to the Last میں کینسر کے علاج کے روایتی طریقے کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ ’کینسر کو ایک بیماری سمجھنا ٹھیک ایسا ہی ہے جیسا پورے افریقہ کو ایک ملک تصور کرنا‘۔

وہ اپنی کتاب میں یہ سوال کرتی ہیں کہ کینسر پر تحقیق کے باوجود بھی اس کے طریقہ علاج میں بہتری کیوں نہیں لائی گئی؟ ان کا مشن ہے کہ سرطان زدہ خلیات کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ان کی نہ صرف نشاندہی بلکہ ان کے صفائے کو بھی ممکن بنایا جائے تاکہ آگے چل کر یہ انسان کو لاعلاج بیماری میں مبتلا نہ کرسکیں۔ کتاب میں ان کے مریض عمر اظفر نامی باصلاحیت ماہرِ معاشیات کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو 40 برس کی عمر میں کینسر کے باعث دردناک موت کا شکار ہوئے۔

ان کتابوں میں سے جو کتاب قارئین پر سب سے زیادہ اپنا سحر طاری کردیتی ہے وہ ہے ڈاکٹر پاؤل کالانتھی کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب When Breath Becomes Air جو 2016ء شائع ہوئی۔

کلانتھی ایک بہترین نیورو سرجن تھے جو گردے کے کینسر کے باعث مارچ 2015ء میں 37 برس کی عمر میں اس جہان سے کوچ کرگئے۔ انہوں نے انگریزی ادب کی ڈگری حاصل کی، پھر ادویات (medicine) کی تعلیم حاصل کی اور اپنی باقی زندگی بیماری ٹھیک کرنے اور لکھنے میں لگا دی۔ 2013ء میں جب ان میں ٹرمنل کینسر کی تشخیص ہوئی تب انہوں نے اپنے بہترین دوست کو بتایا تھا کہ ’اچھی خبر یہ ہے کہ میں پہلے ہی 2 برونٹس Brontes یعنی کیٹس اور اسٹیفن کرین سے زیادہ جی چکا ہوں۔ بُری خبر یہ ہے کہ میں نے اب تک کچھ بھی نہیں لکھا‘۔

اپنی موت سے پہلے یعنی 22 مہینوں کے اندر انہوں نے When Breath Becomes Air کے عنوان کے ساتھ ایک کتاب لکھی، جو ان کی زندگی کی طرح مختصر تھی۔ اس کتاب میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر سے مریض بننے جیسے تکلیف دہ مرحلے کا سامنا انہوں نے کس طرح کیا اور پھر بے روح جسم بن کر رہ گئے، ٹھیک انہی بے جان جسموں کی طرح جن پر تجربات کرکے انہوں نے اپنے علم میں وسعت اور عمق حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر کلانتھی اس جہان منتقل ہوگئے تھے کہ جہاں کوئی راہِ فرار نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’اکثر خواہشیں یا تو پوری ہوجاتی ہیں یا پھر ترک کردی جاتی ہیں۔ جو بھی ہو، ان کا تعلق ماضی سے ہی ہوتا ہے۔ مستقبل مقاصدِ زندگی کی سیڑھی چڑھنے کے بجائے بکھرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ بدلتے حال میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ میں نے جس مستقبل کی محتاط منصوبہ بندی کی اور جو بڑی مشقت سے حاصل ہوا تھا وہ اب وجود ہی نہیں رکھتا۔ موت، جس کو میں نے صرف اپنے کام میں قریب سے دیکھا تھا وہ اب خود مجھ سے ملنے آ رہی تھی‘۔

قریب المرگ مریضوں کو سنبھالنے اور ان کے گھر والوں کو اس مشکل گھڑی میں سہارا دینے سے متعلق وہ انسانی تقاضوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب جراحی چھری بھی کام نہ آئے تو الفاظ ہی سرجن کا آخری اوزار رہ جاتے ہیں‘۔ لیکن ہمدردی کی خوراک بھی دواؤں کی خوراک کی طرح بے حساب نہیں کھلائی جاسکتی۔ المیے کی پیالی کو چمچ سے ٹھہر ٹھہر کر پینا ہی اچھا ہوتا ہے‘۔

محض ایک ہی ہفتے میں ڈاکٹر کلنتھی نے خود کو مسلسل 36 گھنٹوں تک آپریشن کرنے والے سرجن سے کمر کے بل لیٹے مریض میں تبدیل ہوتے دیکھا کہ جسے ہر صبح بستر سے نکلنے کے لیے بھی طاقت یکجا کرنی پڑتی تھی۔

ڈاکٹر کلنتھی جنہوں نے اپنے پیشے میں آگے سے آگے رہنے اور بڑھنے کی خواہش کی، جس نے اپنی ساری زندگی پہلے سے مرتب شدہ ترجیحات کے مطابق گزاری، وہی ڈاکٹر کلنتھی ڈاکٹروں کی اس صلاحیت پر اکتا جاتے ہیں، جو انہیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اب ان کے پاس کتنا وقت ہے۔ ’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے پاس کتنے ماہ یا سال بچے ہیں۔ اگر میرے پاس 3 ماہ ہیں تو میں یہ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاروں گا۔ اگر میرے پاس ایک سال کا عرصہ ہے، تو میں ایک کتاب لکھنا شروع کروں گا۔ اگر مجھے 10 سال کا عرصہ بتایا جاتا ہے تو میں دوبارہ امراض کو ٹھیک کرنے کا کام شروع کردوں گا‘۔

بستر تک محدود ہوکر رہ جانے والے ڈاکٹر کلنتھی چبھتی صداقت کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ ماہر ڈاکٹروں کی پوری ٹیم کس طرح ان کے بستر کے گرد کھڑے ہوکر کبھی بھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹروں نے پاؤل کلنتھی کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر اس کے باوجود وہ 9 مارچ 2015ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔

زندگی کے آخری لمحات میں وہ اپنی اہلیہ لوسی سے ’مدھم اور مضبوط آواز میں کہتے ہیں کہ ’میں تیار ہوں‘۔ تیار ہوں کا مطلب ہے کہ مصنوعی سانس دینے والی مشین کی اب کوئی ضرورت نہیں، درد کی دوا ملنے کو ہے، موت آنے کو ہے۔

ہمارے لیڈران کو دنیا سے ایسی رخصتی کا اعزاز نصیب نہیں ہوا۔ ایوب خان بے ہوشی کی حالت میں موت کی آغوش میں چلے گئے، یحییٰ خان نے رسوایوں کا بوجھ اٹھا کر جہان فانی سے کوچ کیا، ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر موت سے ملے، ضیاالحق نے بیچ فضا میں ہونے والے دھماکے میں اپنی جان گنوائی اور بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔

پرویز مشرف، نواز شریف اور آصف زرداری احتساب کے ہاتھوں ملنے والی آہستہ آہستہ موت کی رسوائی اٹھا رہے ہیں۔

موت ان کے موجودہ سیاسی ضربوں کو ایک نیا زاویہ نظر بخشتی ہے۔


یہ مضمون 12 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں