بھارت: مسلم مخالف 'شہریت' قانون کے خلاف احتجاج کئی ریاستوں تک پھیل گیا

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2019
شہریت بل کے خلاف نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا — فوٹو: اے ایف پی
شہریت بل کے خلاف نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا — فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں شہریت کے حوالے سے مسلم مخالف نئے قانون کے خلاف احتجاج ملک کے شمال مشرقی علاقوں سے دیگر شہروں میں پھیل گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق نئی دہلی میں احتجاج کرنے والے طلبہ کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی اور پولیس نے ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

امرتسر میں مسلم مظاہرین نے پلے کارڈز نذر آتش کیے جبکہ کولکتہ، کیرالا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔

ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں کئی روز سے جاری احتجاج کے باعث نریندر مودی اور ان کے جاپانی ہم منصب شنزوآبے کے درمیان شہر میں ہونے والی ملاقات ملتوی کردی گئی۔

نئی دہلی میں احتجاج کے دوران ایک شخص بھارتی پرچم لہرا رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
نئی دہلی میں احتجاج کے دوران ایک شخص بھارتی پرچم لہرا رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی

گوہاٹی میں گزشتہ روز احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 26 افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے 2 بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑ گئے تھے جبکہ 4 کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔

شہر میں گزشتہ روز احتجاج کے دوران مظاہرین نے مشتعل ہوتے ہوئے کئی گاڑیوں کو آگ اور سڑکیں بلاک کردی تھیں، جبکہ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔

گوہاٹی کے متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود جمعہ کے روز ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور پرامن احتجاج کیا، تاہم اس دوران شہر کی بیشتر دکانیں اور پیٹرول پمپس بند رہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل راجیا سبھا سے بھی منظور

اقوام متحدہ کے جنیوا کے انسانی حقوق آفس کی جانب سے جاری بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شہریوں کے پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے حوالے سے بین الاقوامی روایات کو مدنظر رکھے۔

بھارت کی ایک اور شمال مشرقی ریاست میگھالیا میں انتظامیہ نے موبائل انٹرنیٹ پر پابندی لگادی ہے، جبکہ ریاستی دارالحکومت شیلونگ کے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق جمعہ کو ریاست میں جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 20 افراد زخمی ہوئے۔

واضح رہے کہ بل دونوں ایوان سے منظور ہوچکا ہے اور اب قانون کا حصہ بنانے کے لیے اس پر بھارتی صدر کے دستخط درکار ہیں جو ایک رسمی کارروائی ہے اور صدر کے دستخط کے ساتھ ہی یہ شکل قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل پر احتجاج جاری، بین الاقوامی سطح پر تنقید

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں