بریانی نہ دھاندلی، بطور پاکستانی برطانوی انتخابات کو بہت منفرد پایا

بریانی نہ دھاندلی، بطور پاکستانی برطانوی انتخابات کو بہت منفرد پایا

احمد شاہین

برطانیہ میں قبل از وقت عام انتخابات ہوئے اور کیا خوب ہوئے کہ بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو ایک تاریخی فتح نصیب ہوئی۔

صرف 2 سال قبل 2017ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے تھیریسا مے کی قیادت میں 317 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، یعنی سادہ اکثریت کے لیے مطلوب 326 نشستوں میں سے 9 سیٹیں کم جیتیں، مگر اس بار جانسن کی زیرِ قیادت، نئے عزم اور قدرے جارحانہ انتخابی مہم کے ساتھ، پارٹی نے گویا نقشہ ہی بدل ڈالا اور 365 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی یعنی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 47 نشستیں زیادہ۔

یوں، کنزرویٹو پارٹی نے اپنی سب سے بڑی حریف، لیبر پارٹی کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کی تاریخ کی بدترین ہزیمت سے دوچار کیا۔ 2017ء کے انتخابات میں لیبر نے 262 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن اس بار محض 203 نشستیں ہاتھ آئیں، گویا لیبر کو تقریباً 59 سیٹوں کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔

خیر، الیکشن سمری اور مختصر تجزیے کو یہیں چھوڑ کر آپ کو بتاتے ہیں ہم بھی ووٹ ڈالنے گئے اور برطانوی انتخابی عمل کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

پاکستانی قارئین کے لیے برطانوی الیکشن کی ایک نہایت دلچسپ بات شاید یہ ہو کہ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے آپ کا برطانوی شہری ہونا ضروری نہیں، اگر آپ دولتِ مشترکہ کے کسی بھی ملک کے شہری ہیں اور برطانیہ میں قانونی طریقے سے رہائش پذیر ہیں یا تعلیم حاصل کررہے ہیں تو آپ ووٹ ڈالنے اور ملک کی تقدیر کے فیصلے میں حصہ ڈالنے کے اہل ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ بروقت اپنا اندراج ووٹنگ رجسٹر میں کروائیں۔

پولنگ اسٹیشن میری رہائش گاہ سے قریب اور دفتر کے راستے میں ہی پڑ رہا تھا، سو ہم خراماں خراماں، سر پر چھتری تانے دسمبر کی ہلکی بارش میں واک کا مزہ لیتے روانہ ہوئے۔

یہاں انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن عموماً اسکول یا چرچ میں بنائے جاتے ہیں اور انتخابات کے دن عام تعطیل کا کوئی تصور نہیں، اسی لیے ووٹنگ کا وقت صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک مقرر کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنے دفاتر، کاروبار، تعلیم اور دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ آسانی سے ووٹنگ کا فریضہ بھی انجام دے سکیں۔

قبل ازوقت منعقد ہونے والے یہ انتخابات 1923ء کے بعد واحد انتخابات تھے جو دسمبر کے سرد مہینے میں منعقد ہوئے۔ ورنہ عموماً روٹین میں ہونے والے انتخابات موسمِ گرما ہی میں منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ موسم کی مشکلات لوگوں کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے نہ روک سکے۔

لیکن سردی اور شمال کی جانب کچھ علاقوں میں برف باری کے باوجود بھی الیکشن ڈے پر لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور ووٹنگ عمل میں حصہ لیا۔ ان انتخابات میں ٹرن آوٹ تقریباً 67 فیصد رہا جو گزشتہ انتخاب سے محض 1.5 فیصد کم ہے ورنہ موسم کی سختی اور کرسمس قریب ہونے کی وجہ سے توقع یہی کی جارہی تھی کہ ٹرن آوٹ شاید اس سے بھی کم ہو۔

انتخابات سے چند دن پہلے ہی پولنگ کارڈ موصول ہوجاتا ہے، جس پر حلقہ و ووٹر کی تفصیلات اور قریبی پولنگ اسٹیشن کا ایڈریس تحریر ہوتا ہے۔ ہمارا پولنگ اسٹیشن بھی ایک مقامی اکیڈمی میں بنایا گیا تھا جس کے قریب پہنچنے پر بڑے بڑے عارضی پوسٹرز کی مدد سے انتخابی عمارت کی نشاندہی کی گئی تھی۔

اگرچہ اس بات سے کافی مایوسی ہوئی کہ داخلی دروازے پر نہ تو ڈھول بج رہے تھے اور نہ ہی مختلف امیدواروں اور پارٹیوں کے حامی ٹینٹ لگا کر بیٹھے تھے، پھر بریانی اور قیمے والے نان کا تو سوال ہی کیا!

عمارت کے مرکزی دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوئے اور مزید 2 دروازوں سے گزر کر ایک بڑے ہال میں پہنچے۔ یہاں ایک جانب چند میزیں اور کرسیاں رکھ کر پولنگ کلرکس بیٹھے تھے جبکہ درمیان میں عارضی پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے جہاں جاکر ووٹرز اپنا پسندیدہ امیدوار چن سکتے ہیں۔

پولنگ اسٹیشن میں مختلف ایڈریس کے حساب سے ووٹر لسٹوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا تھا کہ رش اور افراتفری سے بچا جاسکے اور لوگوں کو انتظار کی کوفت بھی نہ ہو۔

خوش قسمتی سے جس لسٹ میں ہمارا نام تھا اس قطار میں اور کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ ہم سیدھا انتخابی عملے کے قریب پہنچے، اس نے رہائشی پتا پوچھ کر نام کی تصدیق کی، اپنی لسٹ میں سے نام کاٹا اور بیلٹ پیپر جاری کردیا۔

دلچسپ بات یہ کہ کلرک نے پیپر، الٹا کرکے تھمایا یعنی بیلٹ کی پشت اوپر کی جانب تھی اور بیلٹ پکڑاتے وقت، اس پر لکھی تفصیلات ظاہر نہیں ہورہی تھیں۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ یہ محض اتفاق تھا یا انتخابی عملے کو ایسی ہدایات ہیں، لیکن بظاہر یہ طریقہ اچھا لگا۔ ویسے اس حوالے سے شاید پولنگ کلرک خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ احتیاط سے کام لے رہا ہو کہ بعد میں کوئی سرپھرا یہ دعوٰی نہ کرسکے کہ پولنگ ایجنٹ نے بیلٹ پکڑواتے وقت کسی خاص امیدوار کے نام کی طرف نشاندہی یا اشارہ کیا۔

دراصل برطانیہ میں ووٹ کے تقدس، رازداری اور رائے کے آزادانہ اور بغیر دباؤ کے استعمال کا حقیقی معنوں میں خیال رکھا جاتا ہے۔ خاص کر پولنگ اسٹیشن میں اشارتاً بھی سیاسی کنونسنگ یا ووٹنگ کے بارے میں مشورہ کرنا سخت منع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنا یا کسی دوسرے کے ووٹ کی معلومات ظاہر کرنا بھی قابلِ گرفت عمل ہے۔

خیر، ہم نے بیلٹ پیپر لے کر پولنگ بوتھ کا رخ کیا جو کلرک کی میز سے محض چند قدم پر ہی عارضی طور پر بنایا گیا تھا۔ بیلٹ پر حروف تہجی کے لحاظ سے اس حلقے سے کھڑے ہونے والے تمام امیدواروں کے نام، پارٹی کا نام اور امیدواران کے رہائشی پتے بھی درج تھے۔ ایسا شاید اس لیے ہو کہ ووٹرز جان سکیں کہ امیدوار مقامی ہے یا غیر مقامی اور شاید یہ بھی کہ جیتنے کے بعد عوامی نمائندوں تک رسائی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔

ہم نے بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام کے آگے یہاں رکھی کچی پنسل سے کراس لگایا اور بیلٹ پیپر کو بوتھ کے باہر رکھے بیلٹ باکس میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے پولنگ کلرک کی جانب دیکھا اور اپنا ہاتھ اس کے آگے کردیا۔ اس نے تھوڑی سی حیرت سے دیکھا اور پھر پھسی پھسی سے مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ تھام کر مصافحہ کیا اور ہم اپنے انگوٹھے پر پاکستان کی انتخابی سیاہی لگنے کی حسرت لیے پولنگ اسٹیشن سے باہر نکل آگئے۔

یہ بھی برطانوی انتخابی عمل کا حُسن ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں نہ تو آپ سے شناختی کارڈ طلب کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اور کاغذ، اگر آپ کا نام ووٹنگ رجسٹر میں موجود ہے تو آپ کو بیلٹ پیپر جاری کردیا جاتا ہے اور ووٹ ڈالنے کے بعد کوئی سیاہی یا نشانی نہیں لگائی جاتی اور نہ ہی بیلٹ پیپر پر مختلف مہریں لگائی جاتی ہیں، محض کچی پنسل سے کراس کا نشان کافی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ انتخابات کے دن مصروف ہیں یا کسی وجہ سے ووٹنگ کے لیے نہیں جاسکتے تو یا تو آپ پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالیں یا پھر اپنے کسی قریبی فرد کو مقرر کریں جو آپ کی مرضی اور ہدایت سے آپ کا ووٹ ڈالے، اسے آسان الفاظ میں پراکسی ووٹ کہا جاتا ہے لیکن ان دونوں سہولیات کے حصول کے لیے انتخابی دفتر کو قبل از وقت بتانا لازم ہے۔

پولنگ اسٹیشن کی حدود، خاص کر جس کمرے میں انتخابی عمل جاری ہوتا ہے، وہاں تصویر لینا یا کسی بھی قسم کی کنونسنگ یا سیاسی مباحثہ کرنا منع ہے، یہاں تک کے اگر آپ ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں موجود ہیں تو آپ اپنے ساتھ آنے والے افراد سے بھی کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کے بارے میں بات چیت نہیں کرسکتے۔

ایسا صرف پولنگ اسٹیشن تک ہی محدود نہیں، بلکہ پولنگ ڈے پر تو میڈیا کے ذریعے بھی کسی قسم کی انتخابی مہم یا سرگرمی، اشاروں کنایوں میں بھی کرنے پر پابندی ہے اور نیوز چینلز انتخابی عمل کو رپورٹ تو کرسکتے ہیں لیکن انہیں ووٹنگ عمل ختم ہونے تک الیکشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تبصرہ بازی کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔

کچھ ایسی ہی حدود و قیود اور سادگی، انتخابی مہم کے دوران بھی دیکھنے کو ملی جب ہفتوں چلنے والی مہم کے دوران نہ تو کوئی روڈ بلاک ہوئی نہ ہی گلیوں میں ٹینٹ لگا کر کارنر میٹنگز کا انعقاد ہوا۔ جلسوں کے علاوہ وال چاکنگ، بڑے بڑے پوسٹرز اور بینرز سے بھی یہ الیکشن محروم ہی رہا۔

ہاں البتہ امیدوار اور ان کے حمایتی گھر، گھر مہم چلاتے رہے اور کمیونٹی سینٹرز میں جاکر لوگوں کو اپنے منشور سے آگہی دیتے نظر آئے۔ خود اپنے حلقے کے ایک اہم امیدوار کو ہم نے 2 بار بازاروں میں مہم چلاتے دیکھا، جبکہ کچھ بس اسٹاپس اور گاڑیوں پر بھی پولیٹیکل برانڈنگ نظر آئی لیکن یہ پاکستان کے مقابلے میں شاید عشر عشیر بھی نہ ہو۔

مختصراً، برطانوی انتخابی عمل، آسان، سادہ اور دلچسپ ہے۔ جتنا وقت آپ کو یہ تحریر پڑھنے میں لگا، بس سمجھیے اس سے کم وقت میں ہم ووٹ ڈال کر باہر بھی آچکے تھے۔


لکھاری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔