چین کا امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2019
چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ رواں برس اگست میں عروج کو پہنچی تھی—فائل/فوٹو:اے ایف پی
چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ رواں برس اگست میں عروج کو پہنچی تھی—فائل/فوٹو:اے ایف پی

چین نے عبوری معاہدے کے تحت امریکا کی آٹو اور دیگر مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ مؤخر کرنے کا اعلان کردیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق چین نے کہا ہے کہ واشنگٹن سے طے پانے والے ایک عبوری تجارتی معاہدے کے بعد امریکی آٹوموبائل اور دیگر مصنوعات پر ٹیرف کا منصوبہ مؤخر کردیا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے یہ اعلان امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر 160 ارب ڈالر ٹیرف کا فیصلہ مؤخر کرنے اور جرمانوں میں 50 فیصد کمی کے حوالے سے رضامندی پر کیا۔

چین کی کابینہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین، امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر اور دونوں فریقین کے تمام مسائل کو باہمی احترام کے ساتھ حل کرنے، چین اور امریکا کے درمیان معاشی تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانے اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے پرامید ہے۔

مزید پڑھیں:چین کا سرکاری دفاتر میں امریکی ساختہ ٹیکنالوجی پر پابندی کا فیصلہ

امریکی نمائندے رابرٹ لائٹزر کا کہنا تھا کہ دو روز قبل کے معاہدے کے تحت چین پابند ہے کہ وہ اگلے دو برسوں میں 40 ارب ڈالر کی امریکی ڈیری مصنوعات درآمد کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کمپنیوں کو ان کی ٹیکنالوجی واپس کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔

اس سے قبل چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی آٹوز کی درآمد پر 25 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے جس سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

چین کے اس فیصلے سے جرمنی کی تیار کردہ بی ایم ڈبلیو اور ڈیملر اے جی مرسیڈیز یونٹ کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا جو امریکی ایس یو وی اور دیگر کاریں چین تک پہنچاتے ہیں۔

امریکا کی دیگر مصنوعات پر 10 اور 5 فیصد کی پنالٹیز عائد کرنے کا بھی ہدف بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹیرف تنازع: ٹرمپ کا امریکی کمپنیوں کو چین سے واپسی حکم

چین نے گزشتہ ہفتے حکومتی دفاتر اور عوامی اداروں میں غیر ملکی سافٹ وئیر اور کمپیوٹر کے استعمال پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد چینی کمپنیوں پر امریکی تجارتی پابندیوں کا جواب دینا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ رواں برس اگست میں اس وقت عروج کو پہنچی تھی جب چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر 75 ارب ڈالر کا نیا ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کیا تھا۔

چین کے اس فیصلے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو فوری طور پر بیجنگ سے واپسی کا حکم دے دیا تھا۔

ٹرمپ نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘ہمارے ملک نے کئی برسوں سے چین کے ساتھ بے وقوفی میں کھربوں ڈالرز ضائع کیے، انہوں نے ہماری جائیداد کو ایک سال میں سیکڑوں، اربوں ڈالر کی قیمت میں چوری کیا اور وہ اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا’۔

مزید پڑھیں:امریکا چین تجارتی جنگ، ‘بیجنگ میں مذاکرات کا پہلا دور مثبت رہا‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں چین کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے بغیر ہمارے لیے اچھا ہوگا، چین نے دہائیوں سے ہر سال بعد امریکا سے بڑی تعداد میں پیسے بنائے اور چوری کیے، جس کو روک دیا جائے گا’۔

دوسری جانب دونوں ممالک کے نمائندے تجارتی جنگ کو ختم کرکے معاشی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کرتے رہے اور رواں ہفتے ایک عبوری معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں کشیدگی میں کمی لانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں