’لوگ مسخرہ سمجھتے ہیں مگر ہم بھی انسان ہیں‘

’لوگ مسخرہ سمجھتے ہیں مگر ہم بھی انسان ہیں‘

اختر حفیظ

وہ ہمیں شاپنگ مالز، پارکس، تفریحی مقامات، کسی افتتاحی یا تشہیری تقریب اور کبھی بچوں کے پلے ایریا میں نظر آجاتے ہیں۔ کبھی یہ رنگین کپڑوں میں ملبوس کارٹون کردار بنے ہوئے، کبھی جوکر کے روپ میں تو کبھی لانگ مین کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے: ہسنانا اور تفریح فراہم کرنا۔

رات گئے تک لوگوں کا دل بہلاتے ہوئے یہ پسینے میں شرابور وجود پل میں مختلف کرداروں کو نبھانا جانتے ہیں، لیکن ہنستے مسکراتے کارٹون کرداروں کے علاوہ ان کا ایک روپ ایسا بھی ہے جس پر لوگوں کی توجہ نہیں جاتی اور نہ ہی وہ اس حوالے سے دلچسپی لینا چاہتے ہیں۔ وہ روپ ہے ان کا حقیقی کسمپرسی سے دوچار روپ کہ جس کو چاہ کر بھی وہ بدل نہیں سکتے۔

انہیں زندگی میں کن دشواریاں کا سامنا ہے، یہ جاننے کے لیے شاید ہی ہم نے کبھی کوشش کی ہو۔

ایک مزاحیہ فنکار ہمیں کتنا ہی ہنساتا کیوں نہ ہو مگر اس کی اپنی زندگی کا دامن بھی دکھوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لوگوں سے اپنے آنسو چھپائے اور چہرے پر میک اپ کی تہ جمائے یہ نوجوان اب مارکیٹ آئٹم بن گئے ہیں۔ یہ دہاڑی پر کام کرتے ہیں اور انہیں تو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی کہ یہ اپنی حقیقی زندگی میں کبھی مسکرا بھی سکیں۔

بچوں اور بڑوں کو تفریح فراہم کرنے والے فنکار
بچوں اور بڑوں کو تفریح فراہم کرنے والے فنکار

لوگوں سے اپنے آنسو چھپائے اور چہرے پر میک اپ کی تہ جمائے یہ نوجوان اب مارکیٹ آئٹم بن گئے ہیں
لوگوں سے اپنے آنسو چھپائے اور چہرے پر میک اپ کی تہ جمائے یہ نوجوان اب مارکیٹ آئٹم بن گئے ہیں

چارلی چپلن دنیا کے معروف مزاحیہ فنکار سمجھے جاتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انہوں نے اس دنیا کو کئی برسوں تک ہنسایا مگر ان کی اپنی زندگی کیا تھی، اس کا پتا ہمیں ان کے اقوال سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بارش میں چلنا پسند ہے، کیونکہ اس طرح کوئی بھی میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح زندگی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قریب سے دیکھا جائے تو زندگی ایک المیہ (ٹریجڈی) ہے جبکہ دُور سے دیکھنے پر یہ طربیہ (کامیڈی) نظر آئے گی۔ آج چارلی چپلن تو نہیں رہے مگر دیگر مزاحیہ فنکار ان کی لیگیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

جب سڑکوں پر خود کو تماشا بناکر دوسروں کو تفریح فراہم کرنے والے مزاحیہ فنکاروں کی زندگی کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا تو اس شخص کی تلاش شروع کی جو انہیں مختلف مقامات پر ڈانس آئٹم اور دیگر کرتب دکھانے کے لیے بھیجتا ہے۔

چند روپوں کے عوض یہ فنکار دیر رات تک اپنا شو جاری رکھتے ہیں
چند روپوں کے عوض یہ فنکار دیر رات تک اپنا شو جاری رکھتے ہیں

پتا چلا کہ میرے شہر حیدرآباد کے علاقے کلاتھ مارکیٹ میں ان کا استاد رہتا ہے، جہاں سے یہ لوگ شہر کے مختلف شاپنگ مالز اور بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور شام سے رات گئے تک تماشا دکھا کر چند پیسے کماتے ہیں۔

شان علی ان لڑکوں کے استاد کہلائے جاتے ہیں۔ وہ گزشتہ 22 برسوں سے مختلف آئٹم دکھاتے آ رہے ہیں۔ وہ میجک شو کرتے ہیں، جمناسٹ بھی ہیں اور ڈانسر بھی۔ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے مگر کئی برسوں سے حیدرآباد میں مقیم ہیں۔

انہوں نے یہ سارے فنون اپنے استاد غلام سرور سے سیکھے۔ ان کے پاس 30 لڑکے ہیں جو پورے شہر میں اس کام کو سرانجام دیتے ہیں۔

شان علی
شان علی

انہوں نے پہلے پہل بچوں کے لیے آئٹم کرنا شروع کیے، بعدازاں انہوں نے کارٹون کرداروں کے لباس اور ماسک تیار کیے جن میں مکی ماؤس، منی ماؤس، بگز بنی اور دیگر کارٹون کردار شامل ہیں۔

انہوں نے خود بیٹھ کر کارٹون کرداروں کے ماسک بنائے اور پوشاکیں تیار کیں، جنہیں پہن کر یہ لوگ محو رقص ہوتے ہیں۔

ان میں سب سے الگ تھلگ لانگ مین (لمبا جوکر) ہوتا ہے۔ ایک لانگ مین کو لکڑیوں کے سہارے چلنے اور ڈانس کرنے کی تربیت حاصل کرنے میں ایک سے 2 ماہ لگ جاتے ہیں، اور یہ کام کافی محنت طلب ہے۔

لانگ مین شو دکھاتے ہوئے
لانگ مین شو دکھاتے ہوئے

شان علی کا کہنا ہے کہ عام کارٹون کردار کی دہاڑی 500 جبکہ لانگ مین کی 1200 روپے ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو ان فنکاروں کے شو کی ضرورت 3، 5 اور 15 دنوں کے لیے ہوتی ہے۔

مگر ان محدود دنوں کے شو کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر بے روزگاری کی چکی میں پستے ہیں۔ وہ سارا سارا دن کسی کنٹریکٹر کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔

شان علی کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

وہ کہتا ہیں کہ ’ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے، یہ ایک ہوائی روزی ہے، کیونکہ ہمیں اکثر ایک ہفتے کے لیے کام ملتا ہے، جس کے بعد بعض اوقات پورا پورا مہینہ خالی بیٹھے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے نہ صرف مجھے بلکہ میرے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں کو بھی مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔

شان علی سالگرہ اور شادی کی تقاریب میں میجک شو اور کینڈل ڈانس بھی کرتے ہیں، جس میں گروپ ڈانس بھی شامل ہوتا ہے۔ ایک گروپ پرفارمنس پر انہیں 8 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں رقص میں مزہ آتا ہے، اس لیے کسی بھی تقریب میں ڈانس کرنا انہیں بہت پسند ہے۔

فنکار رقص کرتے ہوئے
فنکار رقص کرتے ہوئے

جیسا کہ ان کا کوئی مستقل روزگار نہیں ہے اس لیے کسی بھی مارکیٹ کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد انہیں فارغ کردیا جاتا ہے۔ شان علی کے 3 بچے ہیں، وہ انہیں اپنے فن کی تربیت تو دے رہے ہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے اس طرح کا کوئی کام کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس روزگار کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس لیے میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی میری طرح بنیں اور پریشانیوں کا سامنا کریں۔ میں چاہتا ہوں کو وہ پڑھ لکھ کر کوئی مستقل ملازمت کریں، اس لیے میں ان کی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے رہا ہوں۔ لیکن ان کے شوق کی خاطر میں انہیں تھوڑی بہت چیزیں سکھا دیتا ہوں‘۔

میں رات کو قاسم آباد میں ایک مارکیٹ پہنچا جہاں ان کرداروں کا شو ہونے والا تھا۔ یہاں ایک نئے کاروباری مرکز کا افتتاح تھا، جہاں انہیں چند دنوں کے لیے دہاڑی پر بلایا گیا تھا۔

ونوش حیدرآباد میں لانگ مین آئٹم پیش کرتا ہے اور اس نے یہ سب شان علی سے سیکھا ہے اور آج بھی جہاں جہاں لانگ مین کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کی لکڑی سے بنی ہوئی لمبی ٹانگیں جہاں اس کے آئٹم کو دیگر سے ممتاز بناتی ہیں، وہیں بعض اوقات اس کے لیے مسائل بھی پیدا کرتی ہیں۔ آئٹم دکھاتے ہوئے اس کی ٹانگ ایک بار ٹوٹ بھی چکی ہے۔ لکڑی کی اس ٹانگ کو پیروں پر ایک چھوٹی سی تختی سے باندھا جاتا ہے۔ ایک لانگ مین کا تمام تر زور اس پر ہی ہوتا ہے۔

ونوش
ونوش

فن کاروں کی اس ٹولی میں لانگ مین ہی ایک ایسا کردار ہے جو بار بار حادثات کا شکار ہوتا رہا ہے۔ میں یہ سن کر حیران ہوا کہ انہی کا ایک ساتھی لانگ مین کا شو دکھاتے ہوئے گر کر ہلاک ہوگیا تھا۔ حیرت ہے اس حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود بھی وہ یہ کرتب دکھاتے ہیں۔

حیدر علی بگز بنی کا کردار نبھاتے ہیں۔ انہیں بھی یہی شکایت ہے کہ اس کام کی اجرت ناکافی ہے، یہ سب شام کے 7 سے رات کے 12 بجے تک اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں۔

راجہ اور حیدر علی
راجہ اور حیدر علی

لانگ مین شو کرنے والا فنکار حادثات کا شکار ہوتا رہتا ہے
لانگ مین شو کرنے والا فنکار حادثات کا شکار ہوتا رہتا ہے

’جو کپڑے ہم پہنتے ہیں وہ کافی گرم ہوتے ہیں اور ہم انہیں اس وقت تک نہیں اتارسکتے جب تک شو ختم نہیں ہوجاتا، اس لیے سارا جسم پسینے میں نہا جاتا ہے۔ چہرے پر کارٹون کا ماسک پہننے کی وجہ سے کبھی کبھی سانس لینے میں دقت ہونے لگتی ہے، مگر ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے‘، اپنے منہ سے پسینا صاف کرتے ہوئے حیدر علی نے کہا۔

مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ جب یہ مختلف کردار کے بھیس میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے طرح طرح کی حرکات کرتے ہوں گے تب یہ لوگ کس قدر تکلیف محسوس کرتے ہوں گے، مگر کیا کریں، انہیں اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے، اس لیے سانس لینے میں دشواری بھی انہیں قبول ہے۔

تفریحی شوز میں راجہ نامی نوجوان منی ماؤس کا کردار نبھاتا ہے۔ یہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہے اور والد کی وفات کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی ہے۔

اسے آج بھی اسکول نہ جانے کا پچھتاوا ہے، وہ اپنی کسمپرسی کی وجہ غیر تعلیم شدہ ہونے کو بتاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگ ہمیں صرف مسخرہ سمجھتے ہیں، شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ ہم انسان بھی ہیں۔

کارٹون کرداروں کے ماسک پہننے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
کارٹون کرداروں کے ماسک پہننے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

رقص کرتا ایک فنکار
رقص کرتا ایک فنکار

ان سبھی نوجوانوں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ان کی کمائی کا بڑا حصہ استاد کو ملتا ہے، اگر کسی آئٹم کے ہزار دیے جائیں تو ان کے حصے میں صرف 300 روپے ہی آتے ہیں۔

شان علی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لیے سرکاری سطح پر ایک اکیڈمی قائم کی جائے جس میں اس کام سے جڑے تمام لوگوں کو روزگار دیا جائے اور اس کے علاوہ جو لوگ یہ فن سیکھنا یا نکھارنا چاہتے ہیں ان کی مدد کی جاسکے۔ یوں ان کے لیے مستقل روزگار کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔

بدقسمتی سے لوگوں کے لیے آج بھی یہ فنکار تماشا دکھانے والے محض مسخرے ہیں، حالانکہ ان کی اپنی زندگیاں کئی مصائب سے گھری ہوئی ہیں، نہ تو ان کے پاس کوئی مستقل روزگار ہے اور نہ ہی غربت سے نکلنے کا کوئی مستحکم ذریعہ۔

بڑوں اور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے یہ لوگ جب اپنے دکھ بیان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خوشیاں ان سے میلوں دُور ہیں اور ان کا پتا بھول گئی ہیں۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔