جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2019
ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض فریال تالپور کی ضمانت منظور ہوئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض فریال تالپور کی ضمانت منظور ہوئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کے ذریعے میگا منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی اور سابق صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کی ضمانت منظور کرلی۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ می چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فریال تالپور کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عدالتی حکم پر پیش ہوئے اور کہا کہ صبح نیب کی ٹیم کی عدم حاضری پر معذرت چاہتا ہوں، جس پر عدالت نے ان کی معافی قبول کرلی۔

بعد ازاں نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے فریال تالپور کی درخواست ضمانت کی مخالفت میں دلائل دینا شروع کیے، اس دوران جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا فریال تالپور سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے؟

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

عدالتی استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس کیس میں فریال تالپور سے تفتیش مکمل ہوچکی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رقم منتقلی کے معاملے پر پوچھا کہ یہ ڈیڑھ کروڑ روپے کمپنی میں گئے یا فریال تالپور کے پاس گئے، جس پر جہانزیب بھروانہ کے جواب دیا کہ رقم زرداری کمپنی میں گئی۔

پراسیکیوٹر کے جواب پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ فریال تالپور کا اس کیس میں کردار کیا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے شروع ہونے والی ٹرانزیکشن فریال تالپور کے اکاؤنٹ تک گئیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ فریال تالپور نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی رقم نکلوائی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا جس اکاؤنٹ میں رقم گئی وہ اکاؤنٹ فریال تالپور نے ظاہر کر رکھا ہے؟ اگر وہ اکاونٹ ظاہر کیا ہوا ہے تو پھر اسے جعلی اکاؤنٹ نہیں کہہ سکتے۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جس اکاؤنٹ سے رقوم گئیں وہ جعلی اکاؤنٹ ہے۔

دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ اے ون انٹرنیشنل کے جعلی بینک اکاؤنٹ میں رقم گئی، جس سے زرداری گروپ کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہوئی، یہی رقم بعد میں فریال تالپور کے دستخط سے نکلوائی گئی، اس پر ان سے پوچھا گیا کہ بینک اکاؤنٹ میں کتنی رقم تھی اور آپ نے کیسے طے کرلیا کہ نکلوائی گئی رقم وہی تھی جو جعلی بینک اکاؤنٹ سے آئی۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملہ سننے کے بعد ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض فریال تالپور کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل 11 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی تھی، جس کے بعد اگلے روز ضمانتی مچلکوں کی تصدیق کے بعد رہائی کی روبکار جاری ہوئی تھی اور آصف زرداری پمز ہسپتال سے رہا ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریال تالپور نے 3 دسمبر کو ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست دی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ ایک خصوصی بچی کی والدہ ہیں اور ان بچی کی دیکھ بھال کے لیے ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت دی جائے۔

آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرپشن اور پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ اور پارتھینن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے لیے مالی معاونت میں غبن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔

نیب کی جانب سے الزام ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے 3 ارب 77 کروڑ روپے کے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس کی بات کریں تو یہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی گئیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فریال تالپور رات گئے ہسپتال سے اڈیالہ جیل منتقل

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ 14جون کو قومی احتساب بیورو نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) آصف علی زرداری کی بہن اور رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس

واضح رہے کہ فریال تالپور اور ان کے بھائی آصف علی زرداری سمیت دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔

نیب کی جانب سے الزام ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے 3 ارب 77 کروڑ روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس کی بات کریں تو یہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی گئیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق صدر آصف علی زرداری پمز ہسپتال سے رہا

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں