بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت کے نئے قانون پر عملدرآمد روکنے کی اپیلیں مسترد کردیں

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2019
بی جے پی نے پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا
— فوٹو : رائٹرز
بی جے پی نے پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا — فوٹو : رائٹرز

بھارت کی سپریم کورٹ نے شہریت میں ترمیم سے متعلق قانون کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں جس کے باعث ملک میں جاری مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں منظور کیے گئے شہریت کے متنازع قانون پر عملدرآمد روکنے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔

اس حوالے سے عدالت میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف اپیلیں دائر کرنے والے درخواست گزاروں کے وکیل کپل سیبال نے کہا کہ ’ہم اس کیس میں حکم امتناع چاہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھارتی آئین کے ان حصوں کے برعکس ہے جس میں سب کو برابری کی ضمانت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوب دے نے گزشتہ ہفتے منظور کیے گئے قانون پر عملدرآمد روکنے سے متعلق درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

تاہم عدالت 22 جنوری کو شہریت میں ترمیم کے نئے قانون کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرے گی۔

خیال رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کو آج چھٹا روز ہے جن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مزید شدت آگئی۔

نئی دہلی میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جو شہریت کا متنازع قانون واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے پتھر اور کانچ کی بوتلیں برسارہے تھے۔

علاوہ ازیں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں مزید مظاہرے کیے جانے کا امکان بھی ہے۔

3 روز قبل بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں مذکورہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا تھا، جس سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

واقعے سے متعلق شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کو آنسو گیس کے شیل فائر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند نظر آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیرمسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش

ادھر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

علاوہ ازیں بھارتی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے کیے گئے تھے جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہی ہے۔

گوہاٹی میں اتوار کو بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔

مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں