جامعہ حفصہ کو پارک کی زمین پر اپنی تعمیرات رضاکارانہ طور پر گرانے کی ہدایت

20 دسمبر 2019
جامعہ حفصہ کو 12 سال قبل مسمار کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: وکی پیڈیا
جامعہ حفصہ کو 12 سال قبل مسمار کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: وکی پیڈیا

اسلام آباد میں جی-6 میں جامعہ حفصہ کو مسمار کرنے کے 12 سال بعد کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اس کی انتظامیہ کو کہا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی نئی عمارت مسمار کرے کیونکہ یہ جی-7 میں بچوں کے پارک کے لیے زمین پر بنائی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 18 دسمبر کو جاری کیے گئے نوٹس میں سی ڈی اے نے مدرسے کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کے پارک کی زمین پر غیرقانونی تعمیرات ختم کرے۔

یہ نوٹس جو مسجد کمیٹی اور مدرسہ الحفصہ کو بھیجا گیا اور ڈان کے پاس بھی موجود ہے، اس میں کہا گیا کہ سی ڈٰ اے کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ جامعہ حفصہ کی جانب سے 1963 اسلام آباد بلڈنگ ریگولیشنز اور 2005 اسلام آباد ریزیڈینشیل سیکٹرز زوننگ ریگولیشنز کی خلاف ورزی کی گئی۔

مزید پڑھیں: ’امامت سے پہلے جامعہ حفصہ کی غیرقانونی تعمیر پر بات ہونی چاہیے‘

ان خلاف ورزیوں میں مسجد الفلاح سے متصل بچوں کے پارک میں مدرسے کی عمارت کی غیرمجاز اور غیرقانونی تعمیر اور سی ڈی اے کی زمین پر تجاوزات قائم کرنا شامل ہے۔

مذکورہ نوٹس میں مدررسے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 15 روز میں ان خلاف ورزیوں کو ختم کرے بصورت دیگر وہ اپنے انفورسمینٹ ڈائریکٹریٹ کے ذریعے زبردستی ان خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے کارروائی کرے گا۔

ادھر وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی قریب سے نگرانی کی جارہی ہے، کچھ ماہ قبل دارالحکومت پولیس کی خصوصی برانچ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ مدرسہ آہستہ آہستہ ریاستی زمین پر پھیلتا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ جامعہ حفصہ کی اصل عمارت جی-6 میں موجود ہے، تاہم 2007 کے لال مسجد آپریشن کے دوران حکومت نے اسے بچوں کی لائبریری سمیت مسمار کردیا تھا۔

اس فوجی آپریشن کے بعد حکومت اور مسجد کی انتظامیہ ایک معاہدے پر پہنچے تھے جس کے تحت سی ڈی اے، جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے ایک متبادل جگہ فراہم کرے گی۔

سی ڈی اے کی جانب سے مدرسے کو ایچ-11 میں 20 کینال زمین الاٹ کی گئی تھی لیکن ذرائع کے مطابق یہ الاٹمنٹ ابھی پتخہ نہیں ہوئی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن سے قبل جی-7 میں جامعہ سمیہ موجود تھی اور جب جامعہ حفصہ کو مسمار کیا گیا تو جامعہ سمیہ کا نام جامعہ حفصہ کردیا گیا اور مدرسے کو وسعت دینے کا کام شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی برانچ نے بھی اکتوبر میں اس تعمیری کی نشاندہی کی تھی اور یہ انکشاف کیا تھا کہ مولانا عبدالعزیز اور ان کے اہل خانہ 2007 آپریشن کے بعد اس مدرسے میں منتقل ہوگئے تھے۔

خصوصی برانچ کی جانب سے کچھ ماہ قبل سی ڈی اے سے شیئرکی گئی جس میں کہا گیا کہ 'اب گلی 302، جی-7/2-3 کی طرف مدرسے کی دوسری منزل کی چھت بچھانے کی تیاریاں جاری ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: لال مسجد کے خطیب کو ہٹادیا گیا، مولانا عبدالعزیز کے داخلے پر بھی پابندی

خیال رہے کہ لال مسجد کو 1965 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت اس کے خطیب مولانا محمد عبداللہ تھے اور اس کے فوری بعد مسجد کے پیچھے زمین پر ان کے رہائشی کوارٹرز تعمیر کروائے گئے تھے۔

بعد ازاں 1980 کی دہائی میں مسجد کے قریب ایک سرکاری بچوں کی لائبریری تعمیر کی گئی تھی، جس کے بعد 1992 میں جامعہ حفصہ کو 7 ہزار 500 اسکوائر یارڈ پر تجاوزات کے ذریعے اس زمین پر تعمیر کیا گیا تھا جو خواتین کی لائبریری اور سوشل کلب کے لیے مختص تھی۔

تاہم شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد کا کہنا تھا کہ سی ڈٰ اے کے اس دعوے میں کہ جامعہ حفصہ بچوں کی پارک کی زمین پر بنائی گئی 'کوئی سچائی' نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں