وزارت داخلہ نے اپنے عملے کو میڈیا پر آنے سے روک دیا

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2019
نوٹیکفکیشن کے مطابق سیکریٹری داخلہ یا ادارے کے سربراہ سے تحریری اجازت نامہ ضروری قرار دیا گیا—فائل فوٹو: اےایف پی
نوٹیکفکیشن کے مطابق سیکریٹری داخلہ یا ادارے کے سربراہ سے تحریری اجازت نامہ ضروری قرار دیا گیا—فائل فوٹو: اےایف پی

اسلام آباد: ملک کی اہم ترین وزارت داخلہ نے اپنے تمام عملے کو میڈیا پر آنے سے روک دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 'وزیر داخلہ نے ہدایت کی ہے کہ سیکریٹری داخلہ یا متعلقہ محکمہ یا ادارے کے سربراہ کی باقاعدہ اور تحریری منظوری کے بغیر کوئی بھی افسر، اہلکار (پرنٹ/ الیکٹرانک) میڈیا سے بات کرے گا اور نہ ہی کسی بھی عہدیدار کا نظریہ، تبصرہ سوشل میڈیا یا کسی اور معلوماتی چینل پر اپ لوڈ کرے گا'۔

نوٹیفکیشن کے مطابق 'نوٹیفکیشن کی نقول ملک بھر میں وزارت کے ماتحت 22 محکموں کے سربراہان کو ارسال کردی گئی، ان میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے قومی کوآرڈینیٹر، پنجاب اور سندھ میں پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے ڈائریکٹر جنرل اور پشاور میں ایف سی اور گلگت بلتستان اسکاؤٹس کے ڈائریکٹر جنرل بھی شامل ہیں۔

مزیدپڑھیں: سرکاری دفاتر میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہوگی، آئی ٹی حکام

اس فہرست میں شامل دیگر افراد میں اسلام آباد کے چیف کمشنر، آئی جی پی اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین شامل ہیں۔

مذکورہ نوٹیفکیشن میں حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں عوام کے منتخب نمائندے میئر اسلام آباد کو بھی میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے فیصلے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ 13 دسمبر کو حکومت سندھ نے اپنی تمام وزارتوں اور محکموں کے سربراہوں اور افسران کو مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر میڈیا پر صوبائی پالیسیوں سے متعلق بات نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ متعلقہ اداروں کے سربراہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی نمائندگی کرنے والا کوئی بھی اہلکار مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر میڈیا پر حکومتی پالیسیوں پر تبصرہ نہ کرے۔

مراسلے میں کہا گیا تھا کہ 'بعض سرکاری افسران، سرکاری ملازمین ٹیلی ویژن پر ٹاک شوز، پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں، (جس میں) وہ متعلقہ مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر اپنی رائے یا خیالات پیش کرتے ہیں جو کہ قواعد کی خلاف ورزی ہے'۔

مزید پڑھیں: سابق چیئرمین سینیٹ نے میڈیا کورٹس کی مخالفت کردی

واضح رہے کہ سرکاری ملازم (قواعد) رولز 1964 کی شق 22 اور سندھ سول سرونٹ (قواعد) 2008 کی شق 23 پابند کرتی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی بھی دستاویز، عوامی تقریر، ریڈیو نشریات یا ٹیلی ویژن پروگرام میں شرکت کرکے کسی معاملے پر حقائق یا رائے کا اظہار نہیں کرسکتا جو وفاق یا صوبائی حکومت کے لیے باعث شرمندگی ہو۔

اعلامیے میں سندھ گورنمنٹ رولز 1986 کا تذکرہ موجود تھا جس کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر ذرائع ابلاغ پر سرکاری پالیسی، ریکارڈ یا فرائض سے متعلق بیان نہیں دےگا۔

تبصرے (0) بند ہیں