سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ سے دستبرداری کیلئے پاکستان پردباؤ ڈالنے کی تردید کردی

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2019
ترک صدر کے حوالے سے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا  کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی— فائل فوٹو: وزیراعظم آفس
ترک صدر کے حوالے سے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی— فائل فوٹو: وزیراعظم آفس

پاکستان میں سعودی سفارت خانے نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر پاکستان کو مجبور کرنے اور دھمکانے کی خبروں کی تردید کردی۔

اس حوالے سے پاکستان میں موجود سعودی سفارتخانے نے ایک اعلامیہ جاری کیا، جس میں سفارت خانے نے کچھ میڈیا چینلز کی جانب سے نشر کی گئی اس ’معلومات اور جعلی خبروں‘ کی خبر کی تردید کردی جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر ’مجبور کیا تھا اور اس حوالے سے دھمکی‘ بھی دی تھی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال کی جائے جبکہ دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات دیرینہ اور اسٹریٹیجک ہیں جو اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی 'دھمکی' پر پاکستان، ملائیشیا سمٹ سے دستبردار ہوا، اردوان

مذکورہ بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی مسائل خاص طور پر امت مسلمہ کے معاملات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ سفارت خانہ یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ایک کامیاب اور مستحکم ملک بننے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ترک صدر نے سعودی عرب کی ’دھمکی‘ کا انکشاف کیا تھا

واضح رہے کہ گزشتہ روز ترک اخبار صباح کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کی صورت میں اسٹیٹ بینک میں رکھی ہوئی رقم کو واپس نکال لیا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ 'یہ کسی بھی ملک کے لیے پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مخصوص معاملات پر دباؤ ڈالا ہو'۔

ترک صدر کے حوالے سے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘سعودی حکومت نے دھمکی دی تھی کہ 40 لاکھ پاکستانی ورکرز کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلہ دیش کے شہریوں کو ویزے دیے جائیں گے’۔

یہ بھی پڑھیں: 'امہ میں ممکنہ تقسیم روکنے کیلئے بعض ملکوں کے خدشات دور کرنا ضروری ہے'

اردوان نے ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان کو معاشی دشواریوں کے باعث سعودی عرب کی خواہشات پر عمل کرنا پڑا'۔

پاکستان کا ردعمل کیا تھا؟

دوسری جانب دفتر خارجہ کی جانب سے ترک صدر کے بیان پر براہ راست کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'مسلم امہ کی ممکنہ تقسیم روکنے کے لیے کئی اہم مسلم ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔'

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'پاکستان مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا، جو مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔'

کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں

خیال رہے کہ پاکستان ان پہلے ممالک میں شامل تھا جن سے ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے سمٹ کا ارادہ شیئر کیا تھا اور ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجیب طبیب اردوان کو اس بارے میں بتایا تھا۔

بعدازاں ملائیشیا کے نائب وزیر خارجہ مرزوکی بن حاجی یحییٰ نے 29 نومبر کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جسے وزیراعظم نے قبول کرلیا تھا۔

تاہم گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا منسوخ کرنے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں اور 14 دسمبر کو سعودی عرب کے دورے کے بعد انہوں نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق وزیراعظم، سعودی عرب کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت سے دستبردار ہوئے جس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے ابتدائی دنوں میں معاشی بحران سے نکلنےکے لیے مدد کی تھی۔

مزید پڑھیں: عمران خان کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے، ملائیشیا کی تصدیق

بعدازاں 17 دسمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی تھی کہ 18 دسمبر سے کوالالمپور میں شروع ہونے والے 20 ممالک کے اجلاس میں پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔

شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی تھی کہ سربراہی اجلاس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب کو تحفظات تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ممالک پریشان تھے کہ اجلاس سے ’ امہ میں تقسم ‘ ہوسکتی ہے اور اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی ) جیسی ایک تنظیم قائم ہوسکتی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اجلاس سے متعلق تحفظات کے تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان، ریاض اور کوالالمپور کے درمیان خلا کر پُر کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو سمٹ میں شرکت نہیں کی جائے گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد سعودی عرب اور ملائیشیا کو قریب لانا تھا، اجلاس میں شرکت کی اجازت لینا نہیں تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ather H. Akbari Dec 21, 2019 09:21pm
Unfortunately, seasoned politicians keep thinking that the general public is stupid and will accept whatever they will say. Such attitude has led to the rise of leaders like Trump.