پاکستان کو ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رپورٹ پر ایف اے ٹی ایف کا جواب موصول

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2019
پاکستان نے 7 دسمبر کو رپورٹ جمع کروائی تھی — فائل فوٹو: ایف اے ٹی ایف ویب سائٹ
پاکستان نے 7 دسمبر کو رپورٹ جمع کروائی تھی — فائل فوٹو: ایف اے ٹی ایف ویب سائٹ

اسلام آباد: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے علاقائی طور پر منسلک گروپ نے ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق پاکستان کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے تمام شعبوں میں 150 تبصرے اور وضاحتیں دی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے پی جے کے جواب میں شامل اکثر تبصرے پاکستان کی جانب سے کالعدم گروہوں اور مشتبہ افراد کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے متعلق ہیں۔

پاکستان نے 3 دسمبر کے ایف اے ٹی ایف کے ایشیاپ پیسیفک گروپ کو ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق ابتدائی رپورٹ جمع کروائی تھی جو گزشتہ جائزے میں نشاندہی کی گئیں کوتاہیوں سے متعلق تھی۔

وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’ایف اے ٹی ایف کا جواب 20 دسمبر کی رات کو موصول ہوا تھا اور 21 دسمبر کو متعلقہ محکموں کو ارسال کردیا گیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کے تحت ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رپورٹ جمع

اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ابتدائی طور پر فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈائریکٹر جنرل کی زیرِ صدارت اسلام آباد میں آج (22 دسمبر کو) ایک اندرونی اجلاس منعقد ہوگا اور جوابات اگلے ہفتے جمع کیے جائیں گے۔

ایف اے ٹی ایف کا بنیادی تعلق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے انسداد سے متعلق قوانین پر پاکستان کی جانب سے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔

وزارت داخلہ میں موجود ذرائع نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے جواب میں کالعدم تنظیموں سے وابستہ مدرسوں یا انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل مشتبہ افراد سے متعلق کئی سوالات ہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے کالعدم تنظیموں اور مشتبہ افراد کے خلاف دائر مقدمات کی کاپیوں سمیت دیگر تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔

ابتدائی طور پر پاکستان سے متعلق 27 اعتراض اور ان میں سے صرف 5 کی قابل اطمینان رپورٹ دی جاسکی تھی جس کا تعلق انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق قوانین کے نفاذ سے تھا۔

اس حوالے سے حتمی اجلاس وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہر کی زیر صدارت منعقد ہوگا جو ایف اے ٹی ایف سے متعلق حکومت کے فوکل پرسن ہیں اور اس حوالے سے پاکستان 8 جنوری 2020 تک اپنا جواب جمع کروائے گا۔

عہدیدار نے کہا کہ ’بیجنگ میں 21 سے 24 جنوری تک ہونے والے اے پی جی اجلاس کے دوران ایک ملاقات طے کی گئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے حتمی فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کیا جائے گا جو فروری 2020 میں منعقد ہوگا‘۔

خیال رہے کہ 7 دسمبر کو پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کی رپورٹ جمع کرائی تھی جس کے تحت چندہ جمع کرنے والوں پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت 367 مقدمات درج کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ نومبر کے وسط میں ایف اے ٹی ایف کے صدر شیالگمن لو نے میڈیا کو پاکستان کے بارے میں ٹاسک فورس کے فیصلوں پر مفصل بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پاکستان جون 2018 سے گرے لسٹ میں ہے، پاکستان ایک ایکشن پلان پر متفق ہوا تھا تاہم اس کی پیش رفت ناکافی ہے، ایکشن کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے نظام میں موجود خامیوں کو ختم کرنا تھا'۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا 'دہشتگردی سے متعلق سفر' کی مالی معاونت کو جرم قرار دینے پر زور

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اعلیٰ سطح پر یقین دہانیوں کے باوجود کوئی بڑی پیش رفت نہیں کرسکا ہے اور ایکشن پلان کی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ موجودہ حکومت میں پاکستان نے اس معاملے پر کچھ ٹھوس پیش رفت ضرور کی ہے جس کا ایف اے ٹی ایف خیر مقدم کرتی ہے لیکن اب تک بیشتر نکات پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’پاکستان نے اب تک 27 ایکشن نکات میں سے بڑے پیمانے پر صرف 5 پر عمل کیا جبکہ باقی ایکشن پلان پر کی گئی پیش رفت کی سطح مختلف ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف پاکستان کی جانب سے ان معیارات پر پورا نہ اترنے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے لہٰذا پاکستان کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ وہ فروری 2020 تک اپنے مکمل ایکشن پلان کو تیزی سے پورا کرے، اگر ٹھوس پیش رفت نہ کی گئی تو ایف اے ٹی ایف سخت ایکشن لے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں