فلپائن کی امریکا کو ویزا پابندیوں کی دھمکی، 2 سینیٹرز پر پابندی عائد

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2019
امریکا اور فلپائن طویل عرصے تک دفاعی شراکت دار بھی رہے ہیں—فائل/فوٹو:اے ایف پی
امریکا اور فلپائن طویل عرصے تک دفاعی شراکت دار بھی رہے ہیں—فائل/فوٹو:اے ایف پی

فلپائن نے امریکا کی جانب سے ان کے عہدیداروں پر پابندیوں کے جواب میں دو امریکی سینیٹروں پر پابندی عائد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ ان کے شہریوں کو ملک میں داخلے پر ویزے کی پابندیاں متعارف کروائی جائیں گی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق فلپائن کے صدارتی ترجمان سلواڈور پانیلو کا کہنا تھا کہ سینیٹر رچرڈ ڈربن اور پیٹرک لیہے پر ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

امریکی سینیٹرز پر پابندیوں کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں اس لیے لگائی گئی ہیں کیونکہ امریکا کے 2020 کے بجٹ میں ان عہدیداروں کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ایک شق متعارف کروائی گئی ہے جو سینیٹر لیلاڈی لیما کو جیل بھیجنے میں شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کی مرکزی رہنما اور انسانی حقوق کی سابق کمشنر سینیٹر لیلا ڈی لیما فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوئیرٹو کے متنازع ڈرگ وار کی سخت ناقد ہیں اور وہ فروری 2017 سے منشیات کے الزام میں قید ہیں جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور سیاسی مخالفین انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:فلپائن کو اپنی تاریخ کے ایک اور بدترین طوفان کا سامنا

سلواڈور پانیلو نے کہا کہ ‘اگر وہ امریکی بجٹ میں اس شق کو نافذ کریں گے تو پھر ہم تمام امریکیوں کی ہمارے ملک میں داخلے سے قبل ویزے کے حصول کے لیے اقدامات پر مجبور ہوں گے’۔

فلپائن کے شعبہ سیاحت کے مطابق امریکی سیاحوں کو مشروط طور پر ملک میں ایک مہینے تک ویزا فری داخلے کی اجازت ہے۔

فلپائن کے صدارتی ترجمان نے کہا کہ ‘اگر وہ ہمارے نظام اور قوم کی خومختاری پر مداخلت جاری رکھیں گے تو ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے’۔

دوسری جانب ڈی لیما نے جیل سے جاری اپنے ایک خط میں امریکا سینیٹرز کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے فلپائنی عہدیداروں کے حوالے سے شق متعارف کروائی اور کہا کہ ‘استثنیٰ برقرار نہیں رہ سکتا’۔

انسانی حقوق کی سابق کمشنر کا کہنا تھا کہ ان کی قید سیاسی انتقام کا ایک حربہ ہے جو موجودہ صدر کی ایک دہائی سے زائد مبینہ ڈیتھ اسکواڈ کو بے نقاب کیا تھا جس نے ایک شہر کے میئر کو قتل کیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکا طویل عرصے سے فلپائن کا اتحادی اور دفاعی شراکت دار رہا ہے اور نصف صدی سے طویل تعلقات کے دوران فلپائن سے تعلق رکھنے والے کئی شہری امریکا میں جابسے اور ان کے رشتہ داریاں دونوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں اور دوہری شہریت کے حامل بھی ہیں۔

مزید پڑھیں:’مینگ کھٹ‘ طوفان فلپائن کے بعد ہانگ کانگ اور چین سے ٹکراگیا

فلپائن کے موجودہ صدر روڈریگو ڈوئیرٹو نے منشیات کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس کی فلپائن میں حمایت بھی کی جارہی ہے تو اسی شد ومد سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر تنقید کی زد پر بھی ہے۔

ناقدین فلپائنی صدر کے اس اقدام کی مذمت کررہے ہیں کیونکہ ان کی اس جنگ میں کم ازکم 5 ہزار 500 افراد قتل ہوچکے ہیں جبکہ آزاد اداروں کے مطابق اصل اعداد وشمار اس سے چار گنا زیادہ ہیں۔

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے عہدیداروں نے فلپائن میں ہلاکتوں کی ابتدائی تفتیش شروع کردی تھیں اور اقوام متحدہ نے اس کی عمیق تحقیق کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں