امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد ٹرمپ کی ایران کو دھمکی

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2020
امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد اپاچی ہیلی کاپٹر صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے محور پرواز رہے—تصویر:رائٹرز
امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد اپاچی ہیلی کاپٹر صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے محور پرواز رہے—تصویر:رائٹرز

عراق میں امریکی سفارتخانے پر ایران کی حمایت کرنے والے مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران کو خبردار کیا ہے کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

ساتھ ہی امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مزید اہلکار بھیجے جارہے ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حملے میں درجنوں جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد سیکڑوں مظاہرین چیک پوسٹس توڑتے ہوئے بغداد کے ہائی سیکیورٹی گرین زون میں پہنچ گئے اور عراق سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا اور پاسدارانِ انقلاب کے طاقتور ایرانی جنرل قسیم سلیمانی سے وفاداری کا مظاہرہ کیا۔

اس حوالے سے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا کہ یہ حملہ ’دہشت گردوں نے ترتیب‘ دیا تھا جس میں سے ایک کا نام ابو مہدی المہندس تھا۔

ابو مہدی المہندس کی شناخت تہران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم الحشد الشعبی کے نائب رہنما کی حیثیت سے ہوئی جس میں کتائب حزب اللہ شامل ہے جسے امریکی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ

اس حوالے سے سیکریٹری دفاع مارک اسپر نے کہا کہ خطے میں آئندہ کئی روز میں 82 ایئر بورن ڈویژن کے ریپڈ ریسپانس یونٹ کے تقریباً 750 مسلح اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی اہلکاروں اور سہولیات کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات جیسا بغداد میں ہوا، اس کے جواب میں مناسب اور احتیاطی اقدامات کے تحت یہ تعیناتی کی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں امریکا نے منگل کو ہونے والے حملے کے بعد بحریہ کی ریپڈ ریسپانس ٹیم روانہ کردی تھی۔

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران کو سفارت خانے پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی ہلاک ہوئے تو اسے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہماری کسی جگہ پر انسانی جانوں کے ضیاع اور نقصانات کی مکمل ذمہ داری ایران پر عائد ہوگی۔

مزید پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، 93 ہلاکتوں کی تصدیق

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور یہ انتباہ نہیں دھمکی ہے، تاہم بعدازاں انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایران کے ساتھ جنگ کی پیش گوئی نہیں کی۔

دوسری جانب امریکی حکام بھی اس بات پر حیران اور خوف زدہ رہ گئے کہ عراق میں مظاہرین کس طرح بآسانی گرین زون میں داخل ہو کر امریکی سفارتخانے تک پہنچ گئے۔

احتجاج کی براہ راست نشریات میں دیکھا گیا کہ مظاہرین ہائی سیکیورٹی دروازے توڑتے ہوئے سفارتخانے کی عمارت میں داخل ہوئے، کھڑکیاں توڑیں، سینٹری باکس کو آگ لگائی اور ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پینٹاگون نے ایرانی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ کمپاؤنڈ کو سیکیورٹی فراہم کی جائے جو پہلے ہی انتہائی مضبوط ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں پرتشدد مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 35 افراد ہلاک

دوسری جانب تہران کا کہنا تھا کہ امریکا اس حملے کا خود ذمہ دار ہے جس نے کتائب حزب اللہ کے 2 درجن جنگجوؤں کو فضائی حملے میں ہلاک کیا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ ’یہ امریکی اہلکاروں کا حیرت انگیز موقف ہے کہ 25 افراد کو ہلاک کرنے، خطے اور ملک کی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے کے بعد اب یہ عراقی عوام کے احتجاج کو ایران سے منسوب کررہے ہیں‘۔

یاد رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں کیے گئے فضائی حملے میں 2 درجن سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا تھا۔

مظاہرین کے دھاوا بولنے سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے اکثر عملے کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: راکٹ حملوں کے جواب میں عراقی حزب اللہ کے دفتر پر بمباری کی، پینٹاگون

واضح رہے کہ یہ کئی برسوں میں پہلا موقع ہے کہ مظاہرین امریکی سفارتخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے ہیں جہاں یہ سفارتخانہ کئی سیکیورٹی چوکیوں کے حصار کے بعد انتہائی محفوظ علاقے میں واقع ہے۔

مظاہرین نے مسلح گروہوں کے نیٹ ورک 'الحشد الشعبی' کی حمایت میں پرچم لہرائے جو بڑے پیمانے پر سیکیورٹی فورسز میں شامل ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں