آرمی ایکٹ ترمیمی بل: جے یو آئی (ف) کا مخالفت اور بھرپور مزاحمت کا اعلان

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2020
فوج کے سربراہ اور ادارہ دونوں غیر متنازع ہیں، مولانا فضل الرحمٰن — فوٹو: ڈان نیوز
فوج کے سربراہ اور ادارہ دونوں غیر متنازع ہیں، مولانا فضل الرحمٰن — فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں مخالفت اور بھرپور مزاحمت کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ترمیمی بل لایا جا رہا ہے لیکن یہ مسئلہ اہم نوعیت کا ہے جس میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے بنائی گئی اسمبلی کو اس حوالے سے قانون سازی کا حق نہیں دے سکتے۔'

انہوں نے کہا کہ 'جے یو آئی (ف) اس طرح کی اسمبلی میں انتہائی اہمیت کے حامل قانونی بل کی بھرپور مزاحمت کرے گی اور اپنا موقف واضح طور پر رکھے گی کہ ہم اس جعلی اسمبلی کو ایسا قانون منظور کرنے کا حق نہیں دے سکتے۔'

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سقم دور کرنے کے لیے کہا تھا، یہ مزید سقم پیدا کر رہے ہیں، دانشوروں کا ایک بہت بڑا حلقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ جہاں پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو سلب کیا جاتا ہے، ان کے فیصلوں کو تحلیل کیا جاتا ہے وہاں قانون سازی نہیں آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں جو ایسی بات کرے اسے اغوا کرلیا جاتا ہے، سرکاری ادارے بعد میں اغوا کو تسلیم بھی کرتے ہیں، ایسی صورت میں کس طرح پاکستان کے جمہوری آزادانہ ماحول میں یہ بحث کسی منطقی نتیجے تک پہنچ سکتی ہے، لہٰذا ہمیں ایسی قانون سازی کے لیے ایک جائز اور آئینی و جمہوری ماحول چاہیے، یہ لوگ نہ عوام کے نمائندے ہے اور نہ جمہوریت کی علامت ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'فوج ہمارا دفاعی ادارہ ہیں، فوج کے سربراہ اور ادارہ دونوں غیر متنازع ہیں، ہم انہیں متنازع نہیں بنانا چاہتے لیکن حکومتی اقدامات فوج کے ادارے اور قیادت کو متنازع بنا رہے ہیں، لہٰذا جے یو آئی (ف) اس طرح کی کسی بھی قانون سازی سے خود کو لاتعلق رکھنا چاہتی ہے اور اس نے اس طرح سے قانون سازی کی مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔'

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ 'بہت عجلت میں یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کا فرض تھا کہ وہ پہلے تمام اپوزیشن کو اکٹھا کرتی، کل (ن) لیگ کے رہنماؤں کو ٹیلی فون پر اپنا پیغام بھی دیا کہ پوری اپوزیشن کو اکٹھا کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پارلیمنٹ میں بل پر ووٹنگ کا حصہ بننے یا نہ بننے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرے گی۔'

یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم کیلئے حکومت کے اپوزیشن سے رابطے

جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی کی بھی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت

دوسری جانب جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملکی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے بھی تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کردی۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ان کی جماعت تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کرتی ہے، جبکہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی (ف) بھی اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ مسودے میں کتنی بار غلطیاں سامنے آئیں، اگر جلد بازی نہ کی جاتی تو اچھا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اصولی طورپر ملازمتوں میں توسیع کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں ترامیمی بل منظور کر لیے ہیں۔

قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔

یہ تینوں بل پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020، پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) ایکٹ اور پاکستان بحریہ (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے نام سے اسمبلی میں پیش کیے گئے۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

ترامیمی بلز کو پیش کرنے کا مقصد سپریم کورٹ کی جانب سے 28 نومبر کو دیے گئے فیصلے کی روشنی میں آرمی ایکٹ کے احکامات میں ترامیم کرنا ہے تاکہ صدر مملکت کو بااختیار بنایا جائے کہ وہ وزیراعظم کے مشورے پر تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت اور اس حوالے سے قیود و شرائط کی صراحت کرسکیں۔

آرمی، نیوی اور ایئر فورس ایکٹ کے ترمیمی بلز پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں انتہائی مختصر وقت کے لیے ہوا۔

بعد ازاں ان تینوں ترامیمی بلز کو غور کے لیے قائمہ کمیٹیوں میں بھجوایا گیا جہاں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں