موٹرویز پر بائیکس چلانے کی اجازت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2020
اسلام آبا د ہائی کورٹ نے موٹروے پر موٹر سائیکلز چلانے کے لیے یس او پی بہتر بنانے کا حکم دیا گیا تھا — تصویر: اے پی پی
اسلام آبا د ہائی کورٹ نے موٹروے پر موٹر سائیکلز چلانے کے لیے یس او پی بہتر بنانے کا حکم دیا گیا تھا — تصویر: اے پی پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے موٹروے پر ہیوی بائیکس چلانے کی اجازت کے کیس میں متعدد فریقین کو نوٹسز جاری کردیے، حکومت کا موقف ہے کہ ہائی اسپیڈ لینز میں اس قسم کی گاڑیوں کی موجودگی پبلک سیفٹی کے لیے خطرہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس میاں عالم کی سربراہی میں بینچ نے فریقین کو نوٹس جاری کیے تاکہ وہ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرسکیں جس کے بعد اس کیس کی روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کی جائے گی۔

مذکورہ تنازع حکومت کی جانب سے وزارت مواصلات، موٹروے پولیس اور نیشنل ہائی ویز کے انسپکٹر جنرل کی ذریعے دائر مشترکہ درخواست سے متعلق ہے۔

یہ درخواست 10 دسمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے ایک فیصلے کے خلاف ہے جس میں موٹروے پر موٹر سائیکلز چلانے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کو بہتر بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی 219 گاڑیاں نیلامی کرنے کا اعلان

حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے کیوں کہ یہ روڈ سیفٹی کے قوانین کو بے کار بناتا ہے اور چنگچی موٹر سائیکل بھی موٹر وے پر چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد-لاہور موٹروے (ایم 2) کی تعمیر کے بعد نیشنل ہائی وے سیفٹی آرڈیننس 2000 کے تحت موٹروے پولیس کو قومی شاہراہوں پر ٹریفک کو ریگولیٹ اور کنٹرول کرنے کے اختیارات دیئے گئے تھے۔

ایم-2 موٹروے پر موٹر سائیکل چلانے پر روزِ اول سے پابندی عائد ہے۔

مذکورہ پالیسی ہائی ویز اور موٹروے کوڈ رول 202 میں شامل ہے، روڈ ٹریفک کے ویانا کنوینشن کے مطابق سڑک کے اصولوں سے متعلق حکومتی دستاویز 1968 میں تیار کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ہائی ویز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر عائد جرمانوں میں 15 سو فیصد تک اضافہ

اس پابندی سے صرف موٹروے پولیس کو پٹرولنگ کے لیے 500 سی سی کی موٹر سائیکل استعمال کرنے کا استثنیٰ حاصل تھا لیکن اسے بھی حفاظت کی وجہ سے جاری نہیں رکھا گیا اور بائیکس کو کاروں سے پیٹرول کاروں میں تبدیل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ 19 دسمبر 2009 کو وزیراعظم سیکریٹریٹ نے لاہور بائیکرز کلب پریزیڈنٹ برہان محمد خان کی ایک درخواست آگے بڑھائی تھی جس میں موٹروے پر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت مانگی گئی تھی تاہم نیشنل ہائی موٹروے پولیس (این ایچ ایم پی) نے 15 فروری 2010 کو یہ درخوات مسترد کردی تھی۔

بعدازاں 6 اپریل 2010 میں موٹروے پولیس نے 3 سال کے لیے 500 سی سی اور اس سے زائد کی موٹرسائیکل کو موٹروے پر چلانے کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کیا تھا جس کی شرط یہ تھی کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ضروری سہولیات مہیا کرے گی مثلاً سڑک کی علامتوں اور نشانات کے ساتھ موٹر سائیکلوں کے علیحدہ ٹریک وغیرہ۔

تاہم بائیکس کو صرف قومی دنوں پر موٹروے پر آنے کی اجازت ہوگی جس کے لیے محدود تعداد میں مخصوص مدت کے لیے کارڈ جاری کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹر سائیکل پر خواتین مردوں کی طرح نہ بیٹھیں

بعدازاں سیفٹی وجوہات، عوام کی شکایات، اوور اسپیڈنگ، زگ زیگ چلانے، اچانک موڑ کاٹنے اور لین کی خلاف ورزی پر مشروط اجازت بھی واپس لے لی گئی تھی۔

مذکورہ اجازت کی واپسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ بائیکرز کے پاس لائسنس ہوتا ہے اور اس کی موٹر سائیکل رجسٹرڈ ہوتی ہے اس لیے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔

ہائی کورٹ کے دیے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ لاہور بائیکرز کلب کی درخواست پر ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کے ساتھ آزمائشی بنیادوں پر مشروط اجازت دی گئی تھی لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کے علاوہ موٹرسائیکل سوار موٹرویز پر چلنے ولی دیگر طرح کے ٹریفک کے لیے بھی خطرہ بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں