عدالت عظمیٰ کا ٹرائل کورٹ کو امل کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد ٹرائل کورٹ کو حکم دیا—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد ٹرائل کورٹ کو حکم دیا—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے کراچی میں پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی امل عمر کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ کو 3 ماہ میں مذکورہ کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے امل عمر ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران سندھ حکومت اور امل عمر کے والدین کے وکلا پیش ہوئے۔

اس موقع پر سندھ حکومت کے وکیل نے بتایا کہ امل عمر کو جن دونوں پولیس اہلکاروں کی گولی لگی تھی، انہیں برطرف کردیا گیا اور امل کے والدین کو عدالتی حکم پر امداد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

مزید پڑھیں: امل کیس:'سندھ ہیلتھ کمیشن کا غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو محکمے کو ختم کردیں گے'

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امل کے والدین کو 5 لاکھ روپے امداد کی پیش کش کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی فائرنگ سے امل جاں بحق ہوئی، والدین کیوں امداد لیں گے؟ پیسہ اور امدادی رقم کسی کی جان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

اسی دوران عدالت میں امل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری مکمل ہوچکی ہے، جس میں کہا گیا کہ ہسپتال نے دستاویزات میں ٹیمپرنگ کی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ امل عمر کو زخمی حالت میں دوسرے ہسپتال منتقل کرنے میں غفلت برتی گئی، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے نیشنل میڈیکل سینٹر کو 5 لاکھ روپے کا جرمانہ کیا۔

وکیل نے مزید بتایا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر کے چیئرمین انکوائری رپورٹ کو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ نیشنل میڈیکل سینٹر کا کوئی قصور نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سندھ حکومت نے رپورٹ باضابطہ طور پر جمع کیوں نہیں کروائی، ساتھ ہی عدالت نے سندھ حکومت کو اپنی رپورٹ امل کے والدین کو دینے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ امل کے والدین چاہیں تو رپورٹ پر اعتراضات جمع کرواسکتے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امل عمر پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے مقدمے کی کیا پوزیشن ہے؟ جس پر سندھ حکومت کے وکیل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں چالان جمع ہوچکا ہے۔

اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیشنل میڈیکل انکوائری پر ہم نے حکم دیا تو اپیل کا حق نہیں رہے گا۔

بعد ازاں عدالت نے ٹرائل کورٹ کو امل عمر قتل کیس کا فیصلہ 3 ماہ میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے محکمہ پولیس کو ہدایت کی کہ وہ امل کے والدین کو کیا امداد دے گی اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

امل ہلاکت کیس

خیال رہے کہ اگست 2018 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مبینہ مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔

بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔

امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا تھا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔

مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا ہسپتال انتظامیہ نے بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امل کیس: مبینہ پولیس مقابلے کے بعد فرار ہونے والا ملزم گرفتار

اس واقعے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقع کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں۔

بعد ازاں عدالت نے امل کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں