سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2020
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل/فوٹو:ڈان
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل/فوٹو:ڈان

سپریم کورٹ نے کرپشن کے الزام میں گرفتار شہری کی پلی بارگین کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے ملک بھر میں زیر التوا کرپشن مقدمات اور غیر فعال احتساب عدالتوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کرپشن کے الزام میں گرفتار اللہ دینو بھائیو کی درخواست پر سماعت کی۔

ملزم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم نیب کی حراست میں ہے، ہم ان کی طرف سےآدھی رقم جمع کراتے ہیں لہٰذا ضمانت دی جائے۔

مزید پڑھیں:نیب ملزم کی گرفتاری کے بعد گواہیاں اور ثبوت ڈھونڈتا رہتا ہے، جج سپریم کورٹ

پلی بارگین کی پیش کش پر عدالت نے کہا کہ ابھی ضمانت نہیں دے رہے بلکہ پہلے ریکارڈ منگواتے ہیں کہ ٹرائل کورٹس میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں زیر التوا کرپشن کے مقدمات اور غیر فعال عدالتوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

قبل ازیں گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اسٹاک ایکسچینج میں شہریوں سے فراڈ کے الزام میں گرفتار فیصل کامران قریشی کے کیس کی سماعت میں نیب کی جانب سے دوران تحقیقات ملزمان کی گرفتاری پر سوال اٹھا دیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ نیب ملزمان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتا ہے اور گرفتاری کے بعد گواہ اور ثبوت ڈھونڈتا رہتا ہے۔

نیب کی طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے بینچ کے سربراہ نے کہا تھا نیب ساری کارروائی اور تحقیقات مکمل کرکے گرفتار کیوں نہیں کرتا۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ کسی کو پھانسی لگانا ہے اور سزا دینا ہے تو دے دیں لیکن نیب انکوائری اور تحقیقات کے معاملات میں جلدی کیوں نہیں کرتا۔

نیب کے وکیل عمران الحق نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری ریکارڈ میں ردوبدل کے خدشے کے پیش نظر کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری

ملزم فیصل کامران کے خلاف دلائل دیتے ہوئے نیب کے وکیل نے کہا تھا کہ ملزم نے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا تھا جس پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے کہ ریفرنس پر جلد کارروائی مکمل ہو جائے جس پر ملزم کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ میرے موکل کے ذمہ جو رقم تھی وہ ادا کر دی ہے۔

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں بھی یہی کیس میرا موکل بھگت چکا ہے جس پر نیب وکیل نے جواب دیا کہ ملزم نے فراڈ کی پوری رقم ادا نہیں کی جس کے بعد عدالت نے ملزم کے وکیل کی جانب سے درخواست ضمانت واپس لینے پر مقدمہ خارج کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ملک میں بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کرتا ہے اور اس سلسلے میں اب تک کئی بڑے سیاست دانوں کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں جبکہ اس کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے والے افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جاتی رہی ہے۔

ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے حال ہی میں قومی احتساب آرڈیننس میں ترمیم کردی تھی۔

مزید پڑھیں:حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی کردی

تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک کے احتساب قانون، قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں غیر معمولی تبدیلیاں کی گئی تھیں، جس سے نہ صرف سیاستدان بلکہ بیوروکریٹس اور کاروباری برادری کو 'فائدہ' پہنچے گا۔

رہبر کمیٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ کا اعتراض

سپریم کورٹ نے متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے اراکین کی تعیناتی کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست پر اعتراضات لگا کر واپس کر دیا۔

رہبر کمیٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے کہا کہ پہلے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا گیا حالانکہ براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا اور درخواست کے ساتھ لگا گیا سرٹیفکیٹ بھی قانون کے مطابق نہیں۔

خیال رہے کہ رہبر کمیٹی نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ 5 دسمبر کے بعد پیدا ہونے والے ممکنہ آئینی بحران کے حل کے لیے سپریم کورٹ مناسب فیصلہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں