تاپی کی راہ میں نئی رکاوٹ، پاکستان گیس کی قیمتوں میں کمی کا خواہاں

09 جنوری 2020
گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی — فائل فوٹو/اے پی
گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی — فائل فوٹو/اے پی

اسلام آباد: اربوں روپے کے ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (تاپی) پائپ لائن منصوبے کے اسٹیک ہولڈرز اور گیس کے خریدار اسلام آباد اور نئی دہلی نے منصوبے کے شروع ہونے سے قبل گیس کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گیس کی قیمتیں قطر اور دیگر ممالک سے درآمد ہونے والی لیکوئیفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی قیمتوں سے زیادہ ہونے پر باضابطہ طور پر ترکمانستان سے قیمتوں میں کمی کے لیے 5 رکنی قیمتوں پر مذاکراتی کمیٹی (پی این سی) قائم کردی۔

دونوں ممالک نے قیمتوں پر آئندہ ماہ بحث کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، ترکمانستان نے تاپی گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کر دیئے

پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت نے بھی ترکمانستان کے حکام کو قیمتوں میں کمی کے حوالے سے تحریری طور پر لکھ دیا ہے۔

خیال رہے کہ 8 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا ایک ہزار 820 کلومیٹر طویل پائپ لائن منصوے سے 1.3 ارب کیوبک فٹ فی یوم قدرتی گیس پاکستان اور بھارت کی ملنی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی افواج کا افغانستان سے ممکنہ انخلا بھی اس منصوبے کے سرمایہ کاروں میں منفی اثرات پیدا کر رہا ہے۔

سینیئر سرکاری افسر نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی راہداری کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ندیم بابر نے بتایا کہ تاپی منصوبے کے تحت دی گئی موجودہ گیس کی قیمتیں پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس نے ترکمانستان سے قیمتوں پر مذاکرات کے لیے 5 رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق اس کمیٹی میں وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کے سیکریٹری چیئرمین کے طور پر کام کریں گے جبکہ دیگر اراکین میں سیکریٹری فنانس یا ان کے نامزد کردہ، جوائنٹ سیکریٹری وزارت توانائی (پاور ڈویژن)، ڈائریکٹر جنرل (گیس)/ڈائریکٹر (گیس) اور منیجنگ ڈائریکٹر ایس ایس جی سی ایل شامل ہوں گے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ندیم بابر نے ای سی سی کو بتایا کہ ترکمنستان سے ملنے والی گیس کی قیمت دستیاب ایل این جی کی قیمت سے 5 سے 10 فیصد زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ ایل این جی کا میکانزم خریداروں کے لیے آسان ہے جبکہ گیس پائپ لائن ایک مرتبہ بننے کے بعد ترک یا تبدیل نہیں کی جاسکتی اور یہ 15 سے 20 سال سے بھی زائد کی ذمہ داری بن جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز ایک مرتبہ پھر تاخیر کا شکار

پائپ کے ذریعے آنے والی گیس بظاہر جہازوں کے ذریعے آنے والی ایل این جی سے سستی ہے تاہم پاکستان کا اس میں کوئی فائدہ نہیں آرہا ہے۔

ای سی سی کو بتایا گیا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے پہلے ہی ترکمانستان کو گیس کی فروخت اور خرید کے معاہدے پر قیمتوں میں دوبارہ مذاکرات کے لیے نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

رد عمل میں ترکمانستان نے اس معاملے پر بحث کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے اور آئندہ ماہ ان کی ایک ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کرے گی۔

معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا تھا کہ پائپ لائن منصوبے کی تعمیر 2 مراحل میں کی جائے گی جس کا فیصلہ تاپی میں 85 فیصد اسٹیک رکھنے والے ترکمنستان نے کیا تھا۔

پائپ لائن منصوبے میں افغانستان، بھارت اور پاکستان کا 5،5 فیصد اسٹیک شامل ہے۔

بھارت کی جانب سے پائپ لائن کے پاکستان سے گزرنے پر سیکیورٹی کی ضمانت کا مطالبہ کیے جانے پر ترکمانستان نے پاکستان کو بغیر کمپریسر کے 1.3 ارب کیوبک فیٹ فی یوم دینے کا منصوبہ بنایا ہے یہ مقدار کمپریسنگ اسٹیشنز لگانے کے بعد دگنی کی جاسکتی ہے۔

پی ایس او، اسٹیل ملز کا معاملہ

ای سی سی نے وزارت خزانہ کو پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی سیالیت (لیکوئڈٹی) کی صورتحال بہتر بنانے کے نئے ممکنہ طریقے ڈھونڈنے کی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ پی ایس او کو ایف ای-25 قرضوں کے تحت 28 ارب روہے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان قرضوں کو وزارت خزانہ کی ہدایت پر درآمدی آپریشنز کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔

وزارت خزانہ نے ای سی سی کی دہانی کرائی کہ رواں مالی سال کے دوران فنڈنگ کے ممکنہ تمام آپشنز کو آزمایا جائے گا اور آئی ایم ایف کی پابندیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فنڈز میں کسی بھی قسم کی کمی کو آئندہ بجٹ میں پورا کیا جائے گا۔

ای سی سی نے یوٹیلی اسٹورز کارپورریشن آف پاکستان کو نیشنل بینک آف پاکستان کی 5 ارب روپے کے قرضوں کی سہولت پر حکومت پاکستان کی ضمانت کی توسیع کی۔

وزارت آبی ذخائر کی درخواست پر ای سی سی نے واپڈا کو الائیڈ بینک آف پاکستان سے ایک سال کے لیے 17.5 ارب روپے کے تازے قرضے حاصل کرنے کی منظوری۔

ان قرضوں کو صوبوں کو نیٹ ہائیڈل منافع کی ادائیگی کے لیے چند سال قبل حبیب بینک آف پاکستان سے 38.12 ارب روپے قرضے کے معاملات حل کرنے کے لیے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان میں عملی مرحلے میں داخل

حبیب بینک کو 18 ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیں جبکہ دیگر 2.5 ارب روپے کا انتظام سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے اپنے وسائل سے کیا جائے گا۔

ای سی سی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سے پروڈینشل ریگولیشنز آر-4 (شق 1اے اور 2) کلیئرنس دے دی۔

ای سی سی نے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ انڈومنٹ فنڈ کے قیام کے لیے ایک ارب روہے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی بھی منظوری دی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے پاکستان ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو سیاحت کے فروغ اور پاکستان کی بہتر تصویر کی تشہیر کے منصوبے کے ساتھ آئندہ اجلاس میں آنے کی ہدایت دی۔

ای سی سی نے پی جی این آئی جی کے رزق گیس فیلڈ سے ایس ایس جی سی ایل کو گیس فراہم کرنے کی منظوری بھی دی۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ اس وقت گیس کے 2 کنویں، رزق-1 اور رزق-2، 16 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا کر رہے ہیں جو ایس ایس جی سی ایل کو دی گئی ہیں جبکہ رزق-3 کی کھدائی کا عمل جاری ہے جہاں سے 9 سے 10 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہونے کی امید ہے۔

اس کنویں کے مکمل ہونے پر رزق گیس فیلڈ سے مجموعی طور پر گیس کی پیداوار 25 ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گی جبکہ گیس کی قیمتیں موجودہ پیٹرولیم پالیسی کے مطابق ہی رہیں گی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے گیس کے بلوں کی مد میںں ایس ایس جی سی کے واجبات ادا کرنے کے لیے وزارت صنعت و پیداوار کے 3.02 ارب روپے کے مطالبے پر ای سی سی نے سیکریٹری خزانہ کی قیادت میں 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جو اس مسئلے کو موثر حل تلاش کرے گی کہ پہلے سے طے کیے گئے بجٹ سے آگے نہ بڑھا جائے اور ایس ایس جی اور اسٹیل ملز کے بقایاجات کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

تبصرے (0) بند ہیں