اسلام آباد ایئرپورٹ کسی بھی دن گرجائے گا، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مذکورہ کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مذکورہ کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس گلزار احمد نے ملک کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گر جائے گا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ایئرپورٹس پر فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کو سہولیات سے متعلق معاملے پر سماعت کی۔

اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ سول ایوی ایشن کی طرف سے عدالت میں کون موجود ہے، جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ بتائیے گا کہ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے رہائشی اور کاروباری مقامات پر تجاوزات گرانے سے روک دیا

اسی دوران چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، اس بارے میں کون ہے جو جواب دے گا، آپ کو کچھ معلوم نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فلائٹس تاخیر کا شکار ہوتی ہیں مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اتنی بات آپ کو سمجھ نہیں آرہی، آپ کیا ڈائریکٹر بنیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو مسافروں کو ٹھہرانے کی کوئی جگہ ہے، جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس حوالے سے متعلقہ ایئرلائن ذمہ دار ہوتی ہے۔

سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت کے ایئرپورٹ کے معاملے پر بھی ریمارکس سامنے آئے اور چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گر جائے گا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حکومت دس دفعہ اس کی قیمت ادا کرچکی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ چرس اور کرنسی برآمد ہوتی ہے لیکن کوئی فوٹیج نہیں بنتی جبکہ کرنسی بھی دبا کر اسمگل ہورہی ہے، ایک کیس میں اے ایس ایف کے پاس فوٹیج تھی لیکن پیش نہیں کی جس پر ہم نے ملزم کو بری کردیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ایئرپورٹ ریکٹ ہے، دنیا بھر کا اسلحہ تک (یہاں) آتا ہے، پورے ملک کا مستقبل وہاں پر ہی طے ہورہا ہے۔

اس دوران عدالت نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے پوچھا کہ آپ کو کتنا عرصہ ہوا ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ مجھے 20 سال ہوگئے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو سب معلوم ہوگا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم

جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ جہاں کارروائی ہوتی ہے اے ایس ایف کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے پہلے وہ بتائیں، آئے دن پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، اس پر آپ کیا کرتے ہیں۔

ہم آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں، چیف جسٹس کی ایڈیشنل ڈی جی کو تنبیہ

علاوہ ازیں عدالت میں سماعت کے دوران ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن تنویر اشرف طلب کرنے پر پیش ہوئے۔

عدالت میں پیشی کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو عدالتی احکامات کا نہیں پتہ تھا؟ جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے جواب دیا کہ مجھے عدالتی احکامات کا صبح پتہ چلا ہے۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا کام عمل درآمد کرانا تھا 31 مارچ 2018 کا حکم موجود تھا، جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ ہم نے کافی اقدامات کرلیے ہیں۔

مذکورہ جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسائل تو اب بھی چل رہے ہیں، جس پر انہیں بتایا گیا کہ موسم کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں، آج بھی 3 پروازیں ملتان سے لاہور واپس بھیجی گئی ہیں۔

ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ دھند آلود (فوگی) سیزن کی وجہ سے فلائٹس تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فوگی سیزن بھول جائیں، فلائٹ ویسے بھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کیلئے مشترکہ ٹیم بنانے کا حکم

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ویسے تو ریل اور بس بھی ہے لیکن لوگوں کا جہاز سے جانے کا مقصد وقت بچانا ہوتا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پرواز کی منسوخی کی ادائیگی کرتے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے جواب دیا کہ یہ کام ایئر لائن نے کرنا ہوتا ہے اور وہ مسافروں کو کرایہ واپس کرتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عملی طور پر کیا ہورہا ہے ہم وہ پوچھ رہے ہیں، اس پر ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ میرے پاس درست اعداد و شمار نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ صرف گدی گرم کرنے کے لیے بیٹھے ہیں، ہم آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ حکم کردیں گے کہ عدالت میں سیکریٹری یہ ایم ڈی سے کم عہدے کا افسر پیش نہیں ہوگا کیونکہ عدالتی حکم کے باوجود آپ پیش نہیں ہوئے ہیں، اگر آپ کو عدالتی حکم کا نہیں پتہ تو کچھ نہیں پتہ۔

پروازوں میں تاخیر و معاوضے کی ادائیگی سے متعلق رپورٹ طلب

بعد ازاں عدالت نے گزشتہ ایک سال کے دوران فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کو معاوضے سے متعلق اعداد و شمار طلب کرلیے، ساتھ ہی عدالت نے تمام ایئرپورٹس کی مینٹیننس سے متعلق بھی رپورٹ 2 ہفتوں میں طلب کرلی۔

عدالت نے فلائٹ میں تاخیر اور منسوخ ہونے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی، ساتھ ہی کسٹم، اے ایس ایف و دیگر کو بھی اپنی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے 2 ماہ کیلئے پاکستان کوارٹرز خالی کروانے سے روک دیا

عدالت نے حکم دیا کہ سول ایوی ایشن نے کتنے واقعات کے خلاف کارروائی کی رپورٹ دی جائے، گزشتہ ایک ماہ کی مکمل تفصیلات دی جائیں کہ اس حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے۔

جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت کو 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

اورنگ Jan 10, 2020 03:37pm
چیف جسٹس نے بہت ہی اہم مدعے کو اٹھایا ہے اور مقدمے میں سامنے آنے والے نکات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امید ہے کہ اس مقدمے کے نتیجے میں ہوائی اڈوں پر خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔