عمران فاروق قتل کیس: گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2020
اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند نے برطانیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے پراسیکیوٹر کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند نے برطانیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے پراسیکیوٹر کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست پر ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی کردیا۔

اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند نے برطانیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے پراسیکیوٹر کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے تھے۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کارروائی کا جب آغاز ہوا تو ایف آئی اے کے خصوصی پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد نے عدالت کو بتایا کہ برطانوی گواہان بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کے انتظامات کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: برطانوی پولیس نے انتہائی اہم شواہد جمع کرادیے

گواہان کی تیاری کے حوالے سے سوال کے جواب میں خواجہ امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ انہیں اس کام کے لیے ایک ماہ کا وقت درکار ہے، جس کے بعد عدالت نے مذکورہ معاملے کو 17 فروری تک معطل کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، 3 تفتیش کار اور دیگر ماہرین و عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

مذکورہ کیس میں اے ٹی سی نے اب تک 3 تفتیش کاروں کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے جن کی تحویل میں ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما کا 2010 میں ہونے والے قتل سے متعلق ریکارڈ موجود ہے اور ان تفتیش کاروں نے جج کے سامنے اصلی شواہد پیش کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

ان شواہد میں پاکستان کو برطانیہ کے مرکزی حکام کی جانب سے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹس، جمع کیے گئے شواہد کی تفصیلات، تفتیشی افسران اور 23 گواہان کے بیانات موصول ہوئے تھے۔

قبل ازیں 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو اکتوبر کے مہینے تک ٹرائل مکمل کرنے کا کہا حکم دیا تھا تاہم استغاثہ کی جانب سے عدالت سے متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی، جس کی وجہ برطانوی حکومت کا شواہد فراہم کرنے میں رکاوٹ بننا بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ملزم کو سزائے موت سنا دی جائے گی۔

اس کیس میں 2 ملزمان خالد شمیم اور سید محسن علی مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان ریکارڈ کرواچکے ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران فاروق کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ 'ایم کیو ایم کی قیادت کے لیے خطرہ بن گئے تھے'۔

تاہم حال ہی میں ملزمان نے اپنے اعترافی بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے یہ بیان دباؤ میں آکر دیا تھا۔

عمران فاروق قتل کیس میں ایک اور ملزم معظم علی نے کیس میں اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا ہے۔

یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ اے ٹی سی نے پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی متعدد دفعات کے تحت ملزمان پر فرد جرم عائد کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ 5 دسمبر 2015 کو ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے سربراہ اور دیگر رہنماؤں کے خلاف قتل میں ملوث ہونے کے الزامات پر مقدمہ درج کیا تھا۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما تھے جنہیں 2010 میں لندن میں ان کے گھر کے باہر قتل کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں