ہم بھی کتنے بھولے ہیں، اتنے بھولے کہ ہر بات کا غلط مفہوم اخذ کرلیتے ہیں، جو ہم سے بھی زیادہ بھولا ہوتا ہے۔

ہمارے بھولپن کی انتہا دیکھیے کہ بچپن میں نغمہ سُنا ‘تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے’ اور یقین کرلیا، خیر اس میں ہمارا کیا قصور، اس نغمے کی اثر آفرینی کا کمال ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی غیر ملکی بھی ہمارے ملک کو اپنا سمجھنے لگے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ڈرونز ‘یہی تو ہے وہ اپنا پن’ کہتے ہماری سرزمین پر آن وارد ہوئے اور چینی جو چین میں بھی کسی ٹریفک سارجنٹ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے، ہمارے ہاں ٹریفک پولیس اہلکار کی بڑی اپنائیت سے دُھنائی کردیتے ہیں، اور اتنی ہی اپنائیت سے وہ پاکستان میں سَگائی اور اے ٹی ایم مشینوں کی صفائی بھی کرتے رہے ہیں۔

یہ نغمہ تو چلیے اثر انگیزی کے باعث قابلِ یقین تھا مگر ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم نے ایس ایم ایس کے ذریعے ایزی لوڈ مانگنے والی ‘صبا’ کو بھی کبھی مایوس نہیں کیا۔ کئی بار ان سے کہہ چکے ہیں کہ بی بی! بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے خواہ مخواہ ہمارا نام نکل آیا ہے، یہ لو ان کا میسیج آیا ہے، جاﺅ ہماری طرف سے تم ماہانہ رقم وصول کرو۔ مگر یہ خاتون اتنی خوددار ہیں کہ ہر ہفتے اسپتال میں ہونے کے باوجود ایزی لوڈ کے سوا کچھ لینے کو تیار نہیں ہوتیں۔

اب چونکہ نعرے تو بڑے زور سے لگائے جاتے ہیں اس لیے ہم ان پر پورے صدقِ دل سے ایمان لے آتے ہیں۔ کبھی جلسوں میں ‘دیکھو دیکھو کون آیا! شیر آیا، شیر آیا’ کا نعرہ لگتا تھا تو فوراً بھاگ کر کسی کھمبے پر چڑھ جایا کرتے تھے، اور ‘خود ہی’ کو اتنا بلند کرنے کے بعد حیرانی سے سوچا کرتے تھے کہ یہ کیسا شیر ہے جس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پھر جب نیچے دیکھتے تو اسٹیج پر محترم نواز شریف کو ہاتھ ہلاتا پاکر ہمارا خوف اور غلط فہمی دونوں ہی دُور ہوجاتی۔ آخرکار یہ نعرہ لگانے والوں کی غلط فہمی بھی دُور ہو ہی گئی۔

اسی طرح ‘ووٹ کو عزت دو’ کا نعرہ سُن کر ہم سنجیدہ ہوگئے۔ ووٹ کی عزت کا سودا یوں سر میں سمایا کہ صرف ووٹ کہنا ہمارے نزدیک گستاخی قرار پایا۔ جب بھی ذکر کیا ‘ووٹ شریف’ اور ‘ووٹ صاحب‘ سے کم کچھ نہ کہا۔

انتخابات والے دن صبح اُٹھ کر غسل کیا، صاف ستھرے کپڑے پہنے، عطر سے خود کو معطر کیا، سر پر ٹوپی پہنی، پھر بیگم سے کہا جلدی سے ایک چھوٹا سا غلاف سی دو، استفسار ہوا ‘کتنا چھوٹا’، عرض کیا ‘ووٹ کی قامت کا’، وہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگیں تو وضاحت کی، ’بھئی ووٹ شریف کو عزت سے سپردِ ڈبا کرنا ہے، کوئی نیکی تو ہے نہیں کہ کی اور دریا میں ڈال دی’۔

یہ سب اہتمام کرکے پولنگ اسٹیشن پہنچے۔ طویل قطار میں ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑے ہوگئے۔ سر پر ٹوپی اور منہ پر طاری رقت دیکھ کر کئی لوگوں نے کہا، ’بھائی صاب! آپ غلط جگہ آگئے ہیں، جنازہ 2 گلی چھوڑ کر اٹھنا ہے’۔ اب ہم انہیں کیا بتاتے کہ یہاں بھی جنازہ ہی اٹھ رہا ہے۔ دل میں آیا کہیں کہ بدبختو! میت 4 کندھوں پر اٹھتی ہے تو ووٹ 5 انگلیوں سے اٹھا کر ڈبے میں ‘اُتارا’ جاتا ہے، مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگئے کہ تشبیحات کا سلسلہ دراز ہوگیا تو بات کفن چوری کے تذکرے تک جاپہنچے گی۔

خیر، بڑے احترام سے سر جھکا کر ووٹ کی پرچی وصول کی، اسے چوما، آنکھوں سے لگایا، کچھ دیر سر پر رکھا۔ ووٹ کو اتنی عزت دینا وہاں ‘تعینات ایک صاحب’ کو گوارا نہ ہوا، تُنک کر بولے ‘اوئے! ووٹ کو اتنی عزت کیوں دے رہا، عزت سے ووٹ دے اور نکل’۔

اب ہماری عزت خطرے میں تھے، اس لیے جھٹ پولنگ بوتھ میں جاگھسے۔ وہاں رکھی مُہر پر سیاہی لگائی، پھر محبت کے پہلے بوسے اور ہونٹوں پر گرم سموسے کی طرح بڑی آہستگی سے پرچی پر مہر ثبت کی، پیار کے پہلے خط کی طرح پرچی کو تہہ کیا، ایک بار پھر لبوں اور پلکوں سے لگاکر غلاف میں سمایا اور ‘تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں’ کی منظر کشی کرتے ہوئے اسے ڈبے میں سرکا دیا۔ پھر الٹے قدموں چلتے پولنگ بوتھ سے باہر نکل آئے۔

ایک ہم ہی نہیں جو ووٹ کی عزت کرتے ہوں، اس ملک میں ہم سے کہیں زیادہ ووٹ کو عزت دینے والے پائے جاتے ہیں۔ یہ حضرات ہماری طرح خالی خولی عزت نہیں دیتے بلکہ ووٹ کو نوٹ دے کر اس کی عزت بڑھاتے ہیں۔

سینیٹ کے الیکشن میں ملنے والی یہ عزت کروڑوں روپے سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ کسی ووٹ کو تو صرف بریانی کی عزت پر ٹرخا دیا جاتا ہے اور کسی ووٹ کے دونوں ہاتھ گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔

ارے بھئی، ووٹ ووٹ کا فرق بھی تو سمجھیے۔ جسے صرف بریانی کے لائق سمجھا جاتا ہے وہ ہے عام انتخابات کا ووٹ، اور جس پر ‘یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو’ کی نوازشات ہوتی ہیں وہ خاص انتخاب کا ووٹ ہوتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عام انتخابات عام ہوتے ہیں، بلکہ عامیانہ ہوتے ہیں، چنانچہ ان کے ووٹ کے لیے شامیانہ لگا دینا بھی عزت افزائی ہے۔ یہ ووٹ تو اتنا عام ہوتا ہے کہ مُردے بھی ڈال جاتے ہیں۔

خاص انتخاب وہ ہے جو سینیٹ کے لیے ہو یا سینیٹ میں ہو، اس سے بھی خاص یعنی خاص الخاص انتخاب ایکسٹینشن یا تحریک عدم اعتماد جیسی کسی ٹینشن سے نمٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ہوتا ہے وہ انتخاب جس میں صحیح معنی میں ووٹ کو عزت دی جاتی ہے۔

ایسے مواقع پر ووٹ کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے شور شرابے اور بحث مباحثے سے مکمل اجتناب کیا جاتا ہے۔ تاخیر سے گریز اور عجلت سے کام لیا جاتا ہے، ایسے ہی جیسے شریف گھرانوں میں بیٹی کی رخصتی اور متقی خاندانوں میں کفن دفن میں جلدی کی جاتی ہے۔ اس سے آپ ووٹ کی عزت اور تقدیس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ براہ مہربانی یہاں ‘شریف’ اور ‘خاندان’ کا کوئی اور مطلب لینے سے گریز کریں۔

یہ دیگر ووٹوں کے مقابلے میں کہیں معزز ووٹ ہوتا ہے، کیونکہ یہ قومی مفاد میں مکمل یکجہتی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جو ووٹ کی عزت کے معاملے میں ہم سے بھی زیادہ مغالطے سے کام لیتے ہیں، کہتے ہیں کہ دراصل یہ ووٹ کی قدر و منزلت ہے کہ اس کی خاطر یکجہتی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور قومی مفاد بھی۔

تبصرے (3) بند ہیں

سیدہ صائمہ عثمان Jan 16, 2020 05:09pm
جامعی صاحب آپ تو چھا گئے، بہت دلچسپ نہ ٹوٹتا تسلسل اور فصاحت پائی جاتی ہے آپ کی تصنیف میں
R Jan 16, 2020 06:24pm
Bahut umda tahreer g haan benazeer income support key sms ke mutabiq khaksaar bhi 25000 rupay ka malik koi paanch dafaa ban chuka magar tehreer shuda number dial kaney ki himmat nahi hui lahaza aaj tak wasooli se mahroom raha. Mohtarma saba begum k balance ka bhi saat baar sochta hi rah gya aur khud ko malamat karta raha ....
usman jamaie Jan 17, 2020 01:28pm
shukria saima usman