لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

حکومتی طرزِ عمل کے اندھیروں سے دور ہمارے پاس مسکرانے کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔ انہی وجوہات میں سے 10 یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

پہلی: ریاستِ پاکستان بالآخر عملی اور حقیقی طور پر اُسی عفریت کو کھدیڑنے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ لڑ رہی ہے، جسے دہائیوں قبل ریاست نے قومی سلامتی کے مقاصد کی خاطر گود لیا تھا۔

اس سے قطعہ نظر کہ اس نے کسی مقصد میں کوئی مدد کی بھی یا نہیں، یہ بات تو طے ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کو بڑی قیمت چکانی پڑی۔ افسوس کے ساتھ ریاست کو بڑی دیر بعد اس بات کا احساس ہوا۔ یا احساس جبراً دلایا گیا؟ خیر جو بھی ہو، اس عفریت یا ڈراؤنے بھوت کو بوتل میں بند کرنے کی لڑائی کا آغاز چند برس قبل ممکنہ طور پر اے پی ایس سانحے اور ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ملک کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد شروع ہوا۔

وہ دن چلے گئے کہ جب دباؤ سے چھٹکارے اور مقامی و عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لیے دوغلی پالیسی کا بھرپور استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ریاست کے قول و فعل میں ہم آہنگی سی نظر آتی ہے۔

دوسری: یہ ایک واقع غیر معمولی پیش رفت ہے۔ محض 4 برسوں کے اندر ہی دہشتگردی پر اس حد تک قابو پالیا گیا ہے کہ اب یہ جان کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں رہی۔

ریاست نے دہشتگردی کی فنڈنگ کے خلاف (ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کی مرہون منت) مؤثر انداز میں کریک ڈاؤن کیا ہے اور ان سوشل نیٹ ورکس کے خلاف بھی کارروائی کی ہے جو انتہاپسند نظریات کی ترویج میں ملوث تھیں۔ آپ ہی بتائیے کہ دنیا کے ایسے کتنے ممالک ہیں جو 5 برسوں میں انتہا درجے کی دہشتگردی کو شکست دینے کا دعوی کرسکتے ہوں؟

تیسری: ایف اے ٹی ایف خطرے کے ساتھ رحمت کا باعث بھی ہے۔ اگر پاکستان بلیک لسٹ ہوجاتا ہے تو ہم سنگین مسائل میں گِھر جائیں گے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام انجام کو پہنچ جائے گا، ترسیلات زر زبردست حد تک متاثر ہوں گے، بیرونی سرمایہ کاری خاتمے کی طرف بڑھنا شروع ہوگی اور معیشت دھڑام سے گرجائے گی۔

دوسری طرف ایف اے ٹی ایف باعثِ رحمت اس لیے ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ نے ریاست کو اپنے بے وقوفانہ رویوں کو سمجھنے اور دہشتگردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کیا، اگر یہ دباؤ نہ ہوتا تو شاید یہ اقدامات اس برق رفتاری سے نہیں ہوئے ہوتے۔

ایف اے ٹی ایف اگلے ماہ یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جائے یا پھر بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔ اسی اثنا میں ریاست بہت سی اصلاحات لائی ہے جن کے ذریعے دہائیوں سے کندھوں پر لٹکتے بستے سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کے لیے ایک نئی سمت فراہم کرنے میں زبردست مدد ملے گی۔

چوتھی: پہلی بار ہمیں برصغیر میں معقول آواز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف مودی کا بھارت فرقہ وارانہ تشدد، تعصب اور ریاست کے زیر سرپرستی ہونے والے مذہبی بنیاوں پر ظلم، ریاست سے منظور شدہ اور قانونی شکل میں کیے جانے والے مذہبی استحصال کرنے میں مگن ہے، اور جہاں بھارت کی سول ملٹری قیادت پاکستان کے خلاف دھمکیوں کی صورت زہر اگل رہی ہے، وہیں بدلے میں ہم ہوش سے کام لینے، معقول سوچ اپنانے اور مذاکرات کی میز پر آنے کی بات کرتے ہیں۔

اس وقت بھارت کو ایک لوفر، ناپختہ عمر، دیوانے اور ڈھیلے ڈھالے جسم والے ٹین ایج ٹھگ کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے، جبکہ پاکستان ایک ایسے سمجھدار، معقول اور پختہ عمر بالغ کے طور پر نظر آتا ہے جو اس ٹین ایجر کو سماج کے لیے ایک خطرہ بننے اور اسے اپنے ساتھ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے روکنا چاہتا ہے۔

پانچویں: بالاکوٹ یاد ہے؟ جب بھارت نے ہمارے درختوں پر بم گرایا اور بدلے کے نام پر ایک کووے کو مار ڈالا تھا؟ نئی دہلی میں بیٹھے چند لوگوں کے سرخ چہرے یاد ہیں؟ ہمارا رد عمل یاد ہے کہ کس طرح پاک فضائیہ نے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا؟ ابھی نندن اور اس کی چائے یاد ہے اور یاد ہے کہ کس طرح ہم نے غیرمشروط طور پر اسے رہا کردیا تھا؟

ان چند دنوں کے دوران پاکستان نے ایسی بہت سی خوبیوں کا مظاہرہ کیا جو کہ ہمارے حوصلوں کی تقویت بخشی کے لیے کافی تھیں، جیسے بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب، مسلح افواج میں نئے ہیروز کا اضافہ، ہمارے وزیراعظم کی شخصیت کا اپنے بھارتی ہم منصب کے مقابلے میں طویل القامت اسٹیٹس مین ثابت ہونا، جب بھارت نفرت کی کیچڑ میں لت پتھ تھا تب یہاں بھارتی قیدی کے ساتھ روا رکھا جانے والا انسان دوست سلوک، اور دنیا کو یہ بتانا کہ ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ تنازعے کا خطرہ آج پہلے سے زیادہ بڑی حقیقت ہے، لیکن گزشتہ آمنے سامنے میں ہمیں وہ حوصلہ ملا ہے جس کی ہمیں شدید ضرورت تھی۔

چھٹی: امن اور اعتماد کی بحالی نے پاکستان کو اپنے دروازے دنیا کے لیے کھولنے میں مدد دی ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی اور کامیاب پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) نے پاکستان کی ساکھ میں خوشگوار پہلو جوڑا ہے۔ ان ابتدائی فائدوں یا خوشگوار حالات کی پائیداری کے لیے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط انداز میں کام کرنا ہوگا۔

عنقریب پی ایس ایل کے سجنے والے میلے کے ذریعے اس رجحان کو تقویت بخشی جائے اور ریاست کو اس سے ایک طاقتور بیانیہ وجود میں لانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کیونکہ یاد رہے کہ کرکٹ اکثر اوقات صرف محض کرکٹ نہیں رہتی۔

ساتویں: ہر گزرتے سال کے ساتھ علمی و ادبی میلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کے میلوں کے ذریعے دنیا بھر کی اپنے اپنے شعبے میں کامیاب شخصیات کی پاکستان آمد ممکن ہو رہی ہے اور پاکستان کے بہترین اور روشن اذہان کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کا موقع مل رہا ہے، اور پھر انہی سرگرمیوں سے زبردست گفت و شنید، مباحثوں اور مکالمات کا جنم ہوتا ہے۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں منعقد ہونے والا ThinkFest 2020 بھی ایک ایسا ہی میلہ تھا جس کے نہ صرف ہمارے مقامی بلکہ بیرونی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے (دراصل میں وہاں مختلف نشستوں میں شریک تھا)۔ تھنک فیسٹ پالیسی مباحثے کرنے کا مرکز بن چکا ہے کہ جہاں ایسے خیالات و تصورات جنم لیتے ہیں جو ریاست اور سماج کے لیے نہایت سودمند ہیں۔ اس میلے میں ہر عمر کے شہریوں کو مصنفین، دانشوروں، ماہرین اور پالیسی سازوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا موقع ملتا ہے جس سے تصورات اور رائے پر صحتمند مباحثے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

حالانکہ اس قسم کی سرگرمیاں خاصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں پھر بھی اس فیسٹول کے منتظمین کو فنڈنگ اور اسپانسرشپ کے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ ریاست کو اس قسم کے میلوں (اور نئے نئے تصورات کو جنم دینے والی ان تمام سرگرمیوں کی) سپورٹ کے لیے آگے آنا چاہیے تاکہ ایسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو اور مثبت علاقائی اور عالمی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروائی جاسکے۔

آٹھویں: سیاحت بالآخر ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک بن چکی ہے۔ وژن کی عدم موجودگی کے باعث طویل عرصے سے نظرانداز بین الاقوامی سیاحت کا شعبہ پاکستان کو عالمی نقشے میں ایک ایسی نمایاں جگہ فراہم کرسکتا ہے جہاں ہم دہائیوں سے پاکستان سے جڑی دقیانوسی منفی سوچ کو ختم کرسکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کئی اہم شعبوں میں متاثرکن کارکردگی بھلے ہی نہ دکھائی ہو لیکن سیاحت کے شعبے میں انہوں نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ دکھایا۔ انہوں نے تنِ تنہا اسے مرکزی دھارے کی پالیسی میں شامل کیا ہے اور اتنے مختصر وقت میں ہی شعبہ اپنی زبردست صلاحیت کے استعمال کی جانب بڑھ رہا ہے۔

نویں: ملک کے اندر سفری سہولیات عالمی معیار کی ہوچکی ہیں۔ جس طرح سے موٹرویز کی تعمیر و ترقی کا کام رفتار پکڑتا جا رہا ہے، وہ دن دور نہیں کہ جب آپ لاہور میں ناشتہ کریں گے اور عشائیے تک زمینی راستے سے کراچی پہنچ جائیں گے۔ معاشی فوائد کے حصول میں بھی تیزی آئے گی۔

دسویں: معاشرے کے پسے ہوئے اور کمزور طبقات کے حوالے سے پہلے سے زیادہ حکومتی اور سماجی آگاہی ایک ایسا خوش آئند رجحان ہے جو پالیسی کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم درست سمت پر گامزن ہوں گے۔

اس سے تو کوئی انکارن ہیں کہ معاملات بہت اچھے نہیں ہیں، لیکن قارئین اس اعتبار سے خوش ہوسکتے ہیں کہ امید کی کرنیں نمایاں ہیں۔ یہ کرنیں گزرتے وقت کے ساتھ اُجالا کریں گی۔


یہ مضمون 18 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

عرفان Jan 20, 2020 01:28am
گزشتہ ستر سال سے قوم کو شعور نہیں ملا ہے اور ہم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہوتا ہے تو تھوڑی مشکلات بھی ہوتی ہیں جو ایک طرح سے پچھلے سالوں میں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف نہ بولنے اور اٹھنے کا مکافات عمل ہے۔
Sadaqat Malik Jan 20, 2020 04:30pm
excellent very nice