انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر 7 گھنٹے بعد ایف آئی اے کی حراست سے رہا

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2020
جلیلہ حیدر صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی وکیل ہیں —تصویر: فیس بک
جلیلہ حیدر صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی وکیل ہیں —تصویر: فیس بک

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے معروف وکیل اور انسانی حقوق کی رضاکار جلیلہ حیدر کو لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار کرنے کے 7 گھنٹے بعد رہا کردیا۔

جلیلہ حیدر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یونیورسٹی آف سسکز کی جانب فیمنزم پر منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کرنے برطانیہ جانے کے لیے پرواز میں سوار ہونے والی تھیں جب ایئرپورٹ حکام نے انہیں روکا۔

انسانی حقوق کی رضاکار کے مطابق انہوں نے جب حکام سے اس کی وجہ جاننی چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا نام ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ کی وجہ سے نوفلائی فہرست میں موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی سماجی کارکن جلیلہ حیدر دنیا کی 100 متاثر کن خواتین میں شامل

جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ انہیں 7 گھنٹے تک انتظار کروایا گیا لیکن کوئی انہیں دیکھنے نہیں آیا اور بعد میں حکام نے ان کا پاسپورٹ واپس کر کے بتایا کہ وہ برطانیہ کے لیے دوسری پرواز بک کرواسکتی ہیں۔

جلیلہ ایف آئی اے کی حراست سے رہا ہونے کے بعد اپنی بہن سے ملتے ہوئے—تصویر: عمران گبول
جلیلہ ایف آئی اے کی حراست سے رہا ہونے کے بعد اپنی بہن سے ملتے ہوئے—تصویر: عمران گبول

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی والدہ سے ملاقات کیے بغیر نہیں جائیں گی جو ان کے زیر حراست ہونے کی خبریں سن کر پریشان ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ کسی ’ریاست مخالف سرگرمی‘ میں ملوث نہیں۔

جلیلہ حیدر کے زیر حراست ہونے کی خبریں اس وقت گردش میں آئیں جب انہوں نے خود سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کر کے بتایا کہ انہیں لاہور ایئرپورٹ پر روک دیا گیا ہے، جس کے بعد ان کی بہن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے ایئرپورٹ پر اکٹھے ہو کر جلیلہ حیدر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جلیلہ حیدر نے بتایا کہ انہیں بتایا کہ کہ ان کا نام نو فلائی لسٹ میں ہے تاہم اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ کہا گیا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے نام اس فہرست میں درج ہے۔

جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ اس بات کی معلومات کریں گے کہ ان کا نام کس نے اور کس وجہ سے ای سی ایل میں ڈالا لیکن وہ 7 گھنٹے وہاں بیٹھی رہیں اور ان کے پاس کوئی نہیں آیا بعدازاں پاسپورٹ دے کر انہیں کہا گیا کہ برطانیہ کے لیے پرواز کرسکتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا جائے لیکن انہیں ایسا کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا، یا کسی شخص کے خلاف مقدمہ ہونا ضروری ہوتا ہے جس کا نام ای سی ایل میں درج کرنے کے لیے صوبائی حکومت، وفاقی حکومت کو درخواست دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: جلیلہ حیدر کی سربراہی می بھوک ہڑتالی کیمپ

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کا نام کس نے ای سی ایل میں شامل کروایا تاہم نام ای سی ایل میں ہے یا یہ کوئی تکنیکی غلطی تھی اس کی تصدیق کرنے کے بعد وہ نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے عدالت سے رجوع کریں گی۔

جلیلہ حیدر کا تعارف

جلیلہ حیدر صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی وکیل ہیں اور ان کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے، جنہیں اس برادری کی پہلی خاتون وکیل بھی مانا جاتا ہے۔

وکالت کے ساتھ ساتھ وہ ایک عرصے سے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سرگرم سماجی کارکن ہیں۔

جلیلہ حیدر برطانوی نشریاتی ادارے انڈیپینڈنٹ اردو سے بھی وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر ولاگنگ کرتی ہیں۔

علاوہ ازیں وہ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی اراکین میں شامل اور اس کی صوبائی صدر بھی ہیں۔

جلیلہ حیدر ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی کافی متحرک ہیں اور اس حوالے سے ہونے والے احتجاج میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔

گزشتہ برس انہیں بی بی سی کی جانب سے دنیا کی بااثر 100 خواتین کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں