پاکستان میں اس سال سردی کی شدت پورے ملک میں بہت زیادہ دیکھنے میں آئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان دنوں گھر سے باہر نکلنے پر سانس لینے پر منہ سے دھواں نکلتا بھی نظر آیا ہو۔

مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے یعنی شدید ٹھنڈ میں ہماری سانس اچانک ہمیں نظر کیوں آنے لگتی ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟

درحقیقت اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے اور ذرا غور کریں تو آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں۔

اگر غور نہیں کرنا چاہتے تو اس بات سے تو واقف ہوں گے کہ انسانی جسم کا 60 فیصد پانی پر مشتمل ہے۔

پانی کی اتنی مقدار کا مطلب ہے کہ یہ جب ہم سانس خارج کرتے ہیں تو صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ نہیں بلکہ مخصوص مقدار میں پانی کے بخارات کا اخراج بھی ہوتا ہے۔

پانی کے مالیکیولز کو گیس نما شکل میں رہنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی جرورت ہوتی ہے، جب گرم پانی کے بخارات والے مالیکیولز پھیپھڑوں سے بن کر جسم سے باہر سرد ہوا میں جاتے ہیں تو وہ کثیف ہوکر سیال پانی اور برف کے ننھے قطروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

درحقیقت یہی وہ طریقہ کار ہے جس سے بادل بنتے ہیں۔

مگر صرف درجہ حرارت نہیں بلکہ نمی بھی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ بھاپ کی شکل میں اپنی سانس کو دیکھ سکیں۔

جب سانس میں موجود پانی کے بخارات کثیف ہوکر سیال شکل اختیار کرنے کے بعد درجہ حرارت کی اس سطح جس میں ہوا اور پانی کے بخارات شبنم یا اوس میں تبدیل ہوتے ہیں، سے ٹکراتے ہیں، تو آپ کو اپنی سانس دھویں کی شکل میں نظر آنے لگتی ہے۔

یعنی ہوا میں جتنی نمی ہوگی، سانس کو دیکھنے کا موقع بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا چاہے موسم کچھ گرم ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے مقابلے میں موسم خشک ہونے پر باہر جتنی بھی سردی ہو، سانس کو دیکھنے کا موقع اتنا ہی کم ہوگا کیونکہ سرد اور خشک ہوا پانی کے بخارات کو جذب کرلیتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں