Dawnnews Television Logo

دیوسائی نیشنل پارک اور مقامی افراد میں ریچھ کے حوالے سے تنازع

ریچھوں کی یہ قسم پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکا میں پائی جاتی ہے اور پاکستان میں اس کا مسکن دیوسائی کے میدان اور پہاڑ ہیں
اپ ڈیٹ 23 جنوری 2020 09:21pm

دیوسائی نیشنل پارک دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین سطح مرتفع (highest plateaus) میں سے ایک ہے۔ یہ ٹری لائن سے اوپر سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ بلند اور 3 لاکھ 58 ہزار 400 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔

دیوسائی کو دنیا کی چھت اور لینڈ آف جائینٹز ‘land of the giants’ بھی کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کے برفیلے پہاڑ، شفاف ندی نالے، مچھلیاں، پرندے، سیکڑوں اقسام کے پودے (150 کے قریب ادویاتی پودے) اور کہیں کہیں بکری اور بھیڑ دیکھ کر دیوسائی پر جنت کا گماں ہونے لگتا ہے۔

دیوسائی کا شاندار لینڈ اسکیپ—فوٹو: کامران سلیم
دیوسائی کا شاندار لینڈ اسکیپ—فوٹو: کامران سلیم

دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے اور پھر بہار میں اس کے میدانوں میں دنیا کے نایاب رنگوں کے پھول کھل اٹھتے ہیں اور سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔

اس خوبصورت مقام دیوسائی کو 1993ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اس میدان میں پھلتے پھولتے تمام جاندار محفوظ قرار پائے اور اس میں سب سے اہم فلیگ شپ نوع بھورے ریچھ کا تحفظ تھا، لیکن اسی تحفظ یافتہ بھورے ریچھ کے حوالے سے کمیونٹی میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔

’یہ ریچھ ہمارے جانوروں کو کھا جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس بھورے ریچھ کو مار ڈالیں‘، مقامی نوجوان نے ناراضی کا اظہار کیا۔

ہم اسکردو سے 30 کلومیٹر دُور سدپارہ گاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاؤں دیوسائی نیشنل پارک کے بفرزون میں آتا ہے۔ گاؤں والوں کی ناراضی کی وجہ ان کا یقین ہے کہ دیوسائی کا بھورا ریچھ جسے ہمالین براؤن بیئر یا ursus arctos بھی کہا جاتا ہے ان کے جانوروں کا شکار کرتا ہے جبکہ نیشنل پارک کی انتظامیہ اس سے انکار کرتی ہے۔

دیوسائی نیشنل پارک کی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے مابین ریچھ کے حوالے سے ابتدا ہی سے یہ تنازع موجود ہے اور 26 سال گزرنے کے باوجود یہ جھگڑا طے نہیں ہوسکا کہ براؤن بیئر جانور کھاتا ہے یا نہیں؟

دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے۔ ریچھوں کی یہ قسم پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکا میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ الپائن میڈو اینڈ سب الپائن اسکرب میں پائی جاتی ہے۔ چند ریچھوں کو راما اور بیافو گلیشئرز جبکہ چند ایک چترال اور خنجراب نیشنل پارک میں بھی دیکھے گئے لیکن ان کا اصل مسکن دیوسائی کے میدان اور برفیلے پہاڑ ہیں۔

دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے—فوٹو: کامران سلیم
دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے—فوٹو: کامران سلیم

نیشنل پارک کے قیام سے پہلے ریچھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد سے وابستہ وقار ذکریا نے دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دلوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وقار ذکریہ پیشے کے اعتبار سے تو انجینئر ہیں لیکن جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ان کی خدمات 38 سالوں پر محیط ہیں۔

وقار ذکریہ بتاتے ہیں کہ جب 20، 25 سال پہلے ہم یہاں ٹریکنگ کرتے تھے تو ہمیں کوئی ریچھ نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن جب ہم نے سروے کیا تو صرف 17 ریچھ ملے تھے لہٰذا ہم نے کوشش کرکے دیوسائی کو نیشنل پارک ڈیکلیئر کروایا اور اب تازہ ترین سروے کے مطابق یہ تعداد 76 ہوچکی ہے۔ یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

لیکن مقامی آبادی نیشنل پارک میں ریچھوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ریچھوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور نیشنل پارک میں ان کے لیے خوراک کافی نہیں رہی اس لیے اب یہ شکار کے لیے آبادیوں کے قریب نالوں میں آجاتے ہیں‘۔

سدپارہ کے عباس جان کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کا یہ رقبہ ریچھوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے بہت کم ہے۔ اس لیے اب یہ نیشنل پارک کے حدود کے باہر موجود نالوں میں آجاتے ہیں جہاں ہمارے جانور چرتے ہیں تو اب ہم اپنے جانور کہاں لے جاکر چرائیں؟ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال صرف میلپن نالے میں 8 بکریاں شکار ہوئیں۔ اگر ایک گائے یا بکری بھی ماری جاتی ہے تو غریب آدمی کا ہزاروں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ڈپارٹمنٹ کے لوگ ہماری بات سننے کے بجائے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔

عباس جان نے مزید کہا کہ پچھلے سال جہاں جانور مرا تھا وہاں نہ صرف ریچھ کے قدموں کے نشانات موجود تھے بلکہ اس کا فضلہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تمام ثبوت ڈپارٹمنٹ کو دیے مگر انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔

دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے—فوٹو: کامران سلیم
دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے—فوٹو: کامران سلیم

ایک اور گاؤں چلم استور کے فدا علی سلطانی جن کا ہوٹل بھی ہے، وہ عباس کی تائید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریچھ شدید سردیوں سے پہلے خوراک کی تلاش میں دیوسائی سے نیچے اتر کر نالوں میں آجاتے ہیں۔ اس سال 50 سے 60 جانور ریچھ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے۔

اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔

وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ وہ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔ بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دیوسائی میں اور بھی تو جانور ہیں مثلاً بھیڑیے ہیں اور اسنو لیوپرڈ بھی دیکھا گیا ہے لیکن چونکہ نیشنل پارک بننے کے بعد ریچھ کی اہمیت بڑھ چکی ہے اس لیے ریچھ پر الزام لگایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ مقامی افراد کے جانوروں کو تو نہیں البتہ پنجاب اور آزاد کشمیر سے آنے والے گوجر اور بکروال (nomad) کے جانوروں کو خطرہ ہوسکتا ہے, جو ہر سال اپنے جانور چرانے کے لیے دیوسائی سے بھی گزرتے ہیں۔ ہم ان کی چرائی محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تاکہ یہ کور زون میں جاکر ریچھوں کو تنگ نہ کریں۔ اس کے علاوہ ہم دیوسائی نیشنل پارک کے رقبے میں اضافے پر بھی غور کررہے ہیں تاکہ ریچھوں کی بڑھتی تعداد کو کوئی مشکل نہ ہو۔

وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین کہتے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ریچھ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتے ہیں—فوٹو: کامران سلیم
وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین کہتے ہیں کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ریچھ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتے ہیں—فوٹو: کامران سلیم

وقار ذکریا بھی اس حوالے سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کسی خاص صورتِ حال میں ریچھ نے کسی جانور پر حملہ کیا ہو مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے اور سدپارہ گاؤں والوں کے جانوروں کی حفاظت کے لیے تو دیوسائی پر باڑے بھی موجود ہیں جہاں ان کے جانور محفوظ ہوتے ہیں۔

مقامی افراد اس بات پر بھی نالاں نظر آتے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس نیشنل پارک کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی زمینیں رضاکارانہ طور پر دیں۔ ہم سے کہا گیا تھا کہ اگر ہم ریچھ کا تحفظ کریں گے تو ہمیں ڈپارٹمنٹ میں نوکریاں ملیں گی، تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر کی سہولت ملے گی، سیاحوں سے جو پیسہ آئے گا اسے مقامی آبادیوں پر خرچ کیا جائے گا، لیکن 26 سال گزر جانے کے باوجود کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔

گلگت بلتستان کے فارسٹ اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر محمد اکرم کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ابھی تک کمیونٹی کو اس حوالے سے کوئی پیسہ نہیں ملا کیونکہ کچھ گاؤں کی زمینوں کا تنازعہ تھا جو اب حل ہوچکا ہے۔ اب بہت جلد کمیونٹی سے ایک معاہدہ کیا جائے گا اور انٹری فیس سے جمع ہونے والی رقم میں سے ان کا شیئر ان کو دے دیا جائے گا۔

دیوسائی نیشنل پارک میں مقامی افراد کے لیے داخلہ فیس 40 روپے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے آنے والوں کے لیے 200 روپے اور غیر ملکی افراد کے لیے یہ فیس 8 ڈالر رکھی گئی ہے۔

وقار ذکریا کا کہنا ہے کہ ہم نے محکمے کو مشورہ دیا ہے کہ جو گاؤں والے ریچھ کی حفاظت کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، پیسوں پر انہی کا حق ہے، اور یہ رقم اسی گاؤں میں اسکول یا اسپتال وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کی جائے۔ کمیونٹی کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہیں نیشنل پارک سے فائدہ نہیں ہے۔ 25 گارڈ جو دیوسائی میں کام کررہے ہیں وہ سب مقامی ہیں۔ دیوسائی پر ہوٹل کا بزنس اور سیاحوں کے لیے جیپوں کا بزنس بھی مقامی لوگوں کا ہے، لہٰذا ان فوائد کو بھی نظر میں رکھیں۔

Ev-K2-CNR سے بطور سائنسی ماہر وابستہ عاشق احمد خان کا پاکستان میں نیشنل پارک کے حوالے سے بہت کام ہے۔ وہ آج کل دیوسائی نیشنل پارک کا مینجمنٹ پلان ریویو کررہے ہیں۔ مقامی آبادی کی اس شکایت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’میں دیوسائی کا آپریشنل پلان لکھ رہا ہوں جس میں مرنے والے جانوروں کی انشورنس کی سفارش کروں گا۔ یہ کامیاب تجربہ نتھیا گلی میں کیا جاچکا ہے، اس طرح شاید یہ جھگڑا ختم ہوسکے‘۔

دیوسائی نیشنل پارک اور مقامی آبادی کے مابین یہ تنازع یقینا ریچھ کے تحفظ کے اقدامات کو خطرے میں ڈال دے گا لیکن اس کے علاوہ بھی براؤن بیئر کو خطرات لاحق ہیں جن میں اس کا شکار بھی شامل ہے۔

جنگلی حیات اور خصوصاً بھورے ریچھ کے ماہر ڈاکٹر فخر عباس جو وفاقی حکومت کے Federal Wildlife Rescue & Rehabilitation Centre میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کی معلومات کے مطابق بھورے ریچھ کی تجارت کی سب سے بڑی مارکیٹ پشاور میں تھانہ گلبہار کے پیچھے مکڑی مارکیٹ میں ہے, جبکہ ڈسپلے سینٹر گوجرانوالہ میں ہے جہاں ایک سال میں کم از کم 25 سے 30 ریچھوں کے بچوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، جن میں 3 سے 4 بھورے ریچھ کے بچے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ان ریچھوں کو زیادہ تر گلی کوچوں میں ریچھ کا ناچ دکھانے والے خرید لیتے ہیں اور دیگر ریچھوں کو دواؤں اور کھال کے لیے بیرونِ ملک اسمگل کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ان ریچھوں کو زیادہ تر گلی کوچوں میں ریچھ کا ناچ دکھانے والے خرید لیتے ہیں—فوٹو: کامران سلیم
پاکستان میں ان ریچھوں کو زیادہ تر گلی کوچوں میں ریچھ کا ناچ دکھانے والے خرید لیتے ہیں—فوٹو: کامران سلیم

کامران سلیم ایک فلم میکر ہیں، ان کی دیوسائی اور بھورے ریچھ پر بنائی ہوئی دستاویزی فلم ‘DEOSAI – The Last Sanctuary’ کے لیے انہیں کئی ماہ دیوسائی پر رہنے کا موقع ملا۔ ان کا تجربہ ہے کہ بھورے ریچھ کے مختلف اعضا اور کھال کے لیے شکار اب بھی ہوتا ہے اگرچہ بہت کم۔ شدید سردیوں میں جب دیوسائی پر گارڈ وغیرہ نہیں ہوتے تو شکاری اپنا کام کرتے ہیں۔ خود اسکردو شہر میں ایسے حکیم موجود ہیں جو یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ محکمے کے آدمی تو نہیں تب ریچھ کے مخصوص اجزا سے تیار کردہ مخصوص دوائیں فراہم کرتے ہیں۔

دیوسائی کو نیشنل پارک قرار دینے کے 26 سال بعد اب جبکہ دیوسائی نیشنل پارک مینجمنٹ پلان پر عمل درآمد ہونے جارہا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ بہت سے معاملات بہتر ہوسکیں گے اور مقامی آبادی اور ریچھ کے مابین موجود تنازعہ بھی حل ہوجائے گا، کیونکہ دنیا بھر میں مقامی افراد کی شمولیت کے بغیر قدرتی وسائل کے تحفظ کا کام کامیاب نہیں ہوسکتا۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔