خیبر پختونخوا کابینہ سے 3 وزرا کو نکال دیا گیا

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2020
عاطف خان سے صوبائی وزیر کھیل و سیاحت کا قلمدان واپس لے لیا گیا — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
عاطف خان سے صوبائی وزیر کھیل و سیاحت کا قلمدان واپس لے لیا گیا — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

خیبرپختونخوا حکومت کی صوبائی کابینہ میں شامل 3 وزرا سے ان کے قلمدان واپس لے لیے گئے۔

صوبائی انتظامیہ کے کابینہ ونگ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ صوبائی وزیر کھیل، کلچر اور سیاحت محمد عاطف خان، وزیر صحت شاہرام خان ترکزئی اور ریونیو اینڈ اسٹیٹ کے صوبائی وزیر شکیل احمد سے ان کے قلمدان واپس لیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ اقدام دو روز قبل مقامی میڈیا کی جانب سے صوبے میں پریشر گروپ کے سامنے آنے سے متعلق رپورٹس کے بعد دیکھنے میں آیا ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ صوبائی وزیر کھیل و سیاحت عاطف خان اس گروپ کی مبینہ سربراہی کررہے تھے، وہ جولائی 2018 میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی نشست کے لیے مضبوط امیدوار بھی تھے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) پنجاب کی 'اعلیٰ بیوروکریسی' میں اپنے حصے کیلئے کوشاں

گزشتہ روز ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان جاری اختیارات کی رسہ کشی کے باعث وزیراعلیٰ کی حمایت کے لیے ایک عشائیے میں صوبائی قانون سازوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جس میں عاطف خان شریک نہیں ہوئے تھے۔

یہ عشائیہ ایک روز قبل صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور عاطف خان کے درمیان ہونے والے اختلافات کے بعد رکھا گیا تھا، جس کی حکومت نے فوری تردید کردی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سینئر وزیر کی حیات آباد میں قائم رہائش گاہ پر 25 صوبائی اسمبلی کے اراکین کو عشائیے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

جس روز صوبائی حکومت کی جانب سے کابینہ میں تنازع کے حوالے سے رپورٹس کی تردید کی گئی تھی اسی روز عاطف خان کے قریبی تصور کیے جانے والے صوبائی وزیر صحت شاہرام خان ترکزئی کے عزیز محمد علی ترکزئی نے ڈان نیوز کے ٹاک شو 'نیوز آئی' میں بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے اندر اختلافات کے حوالے سے ہونے والی قیاس آرائیوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے سیٹ اب چھوڑنے کا عندیہ دیا تھا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ محمد خان اور صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان کشیدگی کی وجہ صوبائی کابینہ میں تبدیلیوں کے حوالے سے نامزدگیوں کے خط کو مسترد کیے جانے کے بعد شروع ہوئی۔

یاد رہے کہ جولائی 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبرپختونخوا میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی، جنہیں اس وقت مرکز اور صوبے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ قانون سازوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت، ایم کیو ایم وفود کی 'ملاقات': خالد مقبول وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم

حال ہی میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بننے جارہا ہے، جس کی وجہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے انتظامیہ معاملات کے حوالے سے موجود مبینہ اختلافات تھے، تاہم حکومت نے ان کی تردید کی۔

پی ٹی آئی کے پنجاب میں قریبی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت سے علیحدہ کا اشارہ دیا تھا، اور وہ عوامی سطح پر بھی حکومت پر تنقید کررہے تھے اور دباؤ بڑھارہے تھے کہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت کی حمایت ختم کرسکتے ہیں۔

اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، جو مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے، نے بھی حکومت سے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پارٹی کے کنوینر اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کابینہ اور وزارت سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا بعد ازاں دونوں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی تاہم وہ ناکام رہی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں