منظور پشتین کی ضمانت کی درخواست مسترد، ڈی آئی خان جیل منتقل کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2020
منظور پشتین کو بغاوت کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: سراج الدین
منظور پشتین کو بغاوت کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: سراج الدین

پشاور کی مقامی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیئے جانے کے ایک روز بعد انہیں ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

صوبائی دارالحکومت کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج محمد یونس نے ڈیرہ اسمٰعیل خان پولیس کی پی ٹی ایم سربراہ کو ڈی آئی خان منتقل کرنے کی درخواست منظور کی۔

واضح رہے کہ منظور پشتین کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف ائی آر) ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ہی درج ہے۔

عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران منظور پشتین کو پیش نہیں کیا گیا تاہم ان کی نمائندگی ان کے وکیل شہاب خٹک، فرہاد آفریدی اور ایڈووکیٹ فضل نے کی۔

مزید پڑھیں: پشاور: پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین گرفتار، 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

اس دوران ان کے وکیل کی جانب سے منظور پشتین کی راہداری ضمانت کی درخواست کی گئی، جسے مسترد کردیا گیا۔

خیال رہے کہ منظور پشتین کو ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو 27 جنوری کو علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس نے ان کے ساتھ دیگر 9 پی ٹی ایم کارکنوں کو گرفتار کیا، جن کی شناخت محمد سلمان، عبدالحمید، ادریس، بلال، محب، سجادالحسن، ایمل، فاروق اور محمد سلمان کے نام سے ہوئی تھی۔

منظور پشتین کے خلاف مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 (مجرمانہ دھمکیوں کے لیے سزا)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کا فروغ)، 120 بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124 (بغاوت) اور 123 اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کے وقار کو تباہ کرنے کی حمایت) کے تحت درج کیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب ایف آئی آر کی نقل کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں منظور پشتین اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں نے ایک جلسے میں شرکت کی جہاں پی ٹی ایم سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پشتین نے ریاست سے متعلق مزید توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔

منظور پشتین کی گرفتاری پر پی ٹی ایم رہنما اور اراکین قومی اسملی محسن داوڑ اور علی وزیر نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے گروپ کی شکایات دور کرنے کے بجائے ریاست نے ان کے لیڈر کو گرفتار کرلیا۔

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس سے پوچھا کہ منظور پشتین کو کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا لیکن اتھارٹیز نے انہیں کوئی وجہ نہیں بتائی اور تعاون سے انکار کردیا۔

منظور پشتین کی گرفتاری کو 'اغوا' قرار دیتے ہوئے محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ منظور پشتین کو بنوں میں اس تقریر پر گرفتار کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ تمام پشتون رہنماؤں کو اکٹھا کریں گے'۔

ساتھ ہی انہوں نے پی ٹی ایم کارکنان کو 'ہمیشہ کی طرح پرامن' رہنے کا کہتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گرفتاری کے خلاف احتجاج کرے گی۔

پشتون تحفظ موومنٹ

واضح رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایسا اتحاد ہے جو سابق قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کے خاتمے کے مطالبے کے علاوہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی گرفتاریوں کے خاتمے پر زور دیتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ایک سچے اور مفاہمتی فریم ورک کے تحت ان کے محاسبے کا مطالبہ کرتا ہے۔

پی ٹی ایم ملک کے ان قبائلی علاقوں میں فوج کی پالیسیوں کی ناقد ہے، جہاں حالیہ عرصے میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم کا منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا اعلان

تاہم پی ٹی ایم کے رہنما خاص طور پر اس کے قومی اسمبلی کے اراکین بغیر کسی عمل کے انتظامیہ کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کے لیے فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم پاک فوج کا کہنا کہ یہ پارٹی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ریاست کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس پی ٹی ایم کے دو رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو پولیس نے خرقمر میں مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر فوجی اہلکاروں سے تصادم اور تشدد پر گرفتار کیا تھا۔

پی ٹی ایم کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملک کے قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے ان کی پرامن جدوجہد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں