عام طور پر کوئٹہ میں لوگ سیاست، دہشتگرد حملوں یا گاڑیوں اور پراپرٹی سے متعلق معاملات پر ہی گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک دن میرے دوست نے مجھے بذریعہ سڑک جرمنی سے پاکستان آنے والے اپنے چچا کے سفر سے متعلق بتایا تو میری اس موضوع میں دلچسپی بڑھ گئی اور میں نے یہ سوچا کہ میں خود کوئٹہ میں مقیم 85 سالہ کاروباری سید میر احمد شاہ سے ان کے اس سفر سے متعلق کہانی کیوں نہ سن لوں۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیا آپ گوگل نقشوں اور جی پی ایس کے بغیر روڈ ٹرپ کی منصوبہ بندی کا سوچ سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ پھر اب سیکیورٹی مسائل اور ویزا پابندیوں کی وجہ سے ایسے کسی بھی بین الاقوامی سفر کا تصور بھی محال ہے۔ مگر 1967ء میں جب کوئٹہ کے احمد شاہ نے اپنے 3 دوستوں اقبال شاہ، غلام محمد اور اظہر کے ساتھ جرمنی سے کوئٹہ جانے کے لیے رخت سفر باندھا تھا اس وقت یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا۔

63ء-1962ء میں جب میر احمد 30 برس کے تھے تب وہ زمینی راستے سے ایران اور عراق جاچکے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ان کی منزل یورپ تھی۔ جرمنی میں 2 برس کے قیام اور کام کرتے کرتے انہوں نے کچھ پیسے بچاکر مرسیڈیز خریدی تھی جبکہ ان کے دیگر 3 ساتھیوں نے ڈبل کیبن گاڑیاں خریدی تھیں، اور یوں انہوں نے یہ پورا سفر اپنی اپنی گاڑیوں میں کیا۔

میر احمد اس مرسیڈیز کے ساتھ کھڑے ہیں جس پر انہوں نے جرمنی سے کوئٹہ تک کا زمینی سفر کیا—تصویر بشکریہ لکھاری
میر احمد اس مرسیڈیز کے ساتھ کھڑے ہیں جس پر انہوں نے جرمنی سے کوئٹہ تک کا زمینی سفر کیا—تصویر بشکریہ لکھاری

جب میر احمد کو یہ پتا چلا کہ میں خاص طور پر ان کی کہانی سننے آیا ہوں تو انہوں نے بڑے ہی پُرجوش انداز میں اپنی سفری کہانی کچھ اس طرح بتانا شروع کی کہ ’میں پہلی بار ایجنٹوں کے ذریعے جرمنی گیا تھا جو آپ کو بذریعہ بس ایک سے دوسری سرحد عبور کروا دیا کرتے ہیں، یوں مجھے زمینی راستے اور سڑکوں کا کسی حد تک اندازہ ہوگیا تھا، اسی لیے ہم نے خود سے زمینی راستے پر چلتے ہوتے پاکستان کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم جرمنی سے آسٹریا پہنچے پھر بلغاریہ (جو اس وقت چیکوسلوواکیا تھا) سے ترکی آئے۔ ان دنوں یورپ بہت ہی زبردست جگہ تھی۔ گہرے سبز درخت، حیرت انگیز خوبصورتی سمیٹے گلی کوچے اور کیمپنگ کے میدان اسے زمینی سفر کے لیے بہترین جگہ بنادیتے ہیں۔ یورپ سے ہم ترکی میں داخل ہوئے، جس کے بعد اردن، عراق اور ایران سے ہوتے ہوئے افغانستان آمد ہوئی جہاں سے چمن بارڈر کے ذریعے پاکستان پہنچے‘۔

اس سفر کے دوران انہیں مختلف اقسام کے لوگ بھی ملے۔ میر احمد نے بتایا کہ ’ہم چیکوسلوواکیا پہنچ کر ایک کیفے پر رُکے تھے۔ میں نے بیرے کو جرمن زبان میں بتایا کہ وہ مارجرین میں تلے ہوئے آملیٹ لے آئے، دراصل ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ آیا ان کے پاس دستیاب مکھن حلال ہے بھی یا نہیں؟ کیفے میں آس پاس کچھ بوسنیائی مسلمان ہمیں گھورنے لگے اور ہم سے پوچھا کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم آپ کے دیے گئے حلال ناشتے کے آرڈر سے ہی سمجھ گئے تھے کہ آپ ضرور مسلمان ہیں‘۔

میر احمد بتاتے ہیں کہ وہ دیر رات کو ترکی کے شہر انطاکیہ پہنچے تھے جہاں طوفانی بارش برس رہی تھی۔ چونکہ اقبال کا ایک چوراہے پر معمولی سا حادثہ پیش آیا تھا اس لیے ہم نے شہر میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔

شہر میں ٹھہرنے کے لیے جگہ کی تلاش کے دوران میر احمد کو ایک عارضی قیام گاہ نظر آگئی، اور وہ سارے دوست وہاں چلے گئے۔ وہاں اپنے خیالوں میں ڈوبے اور اپنی موچھوں کو گھمانے میں مصروف چند ترک آدمی موجود تھے، جو ہماری زیادہ مدد نہ کرسکے۔ میر احمد وہاں سے باہر نکل کر ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کہاں جایا جائے کہ اتنے میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔

میر احمد بتاتے ہیں کہ ’درویش کے لباس میں ملبوس ایک شخص ہمارے قریب آیا اور مجھ سے فارسی زبان میں پوچھنے لگا کہ ’فارسی میدانی (کیا آپ کو فارسی آتی ہے)۔ میں نے جواب دیا کہ ’بلے میدانم‘ (جی ہاں مجھے فارسی آتی ہے')۔ یہ سُن کر درویش نے کہا کہ وہ ہمیں قیام کے لیے جگہ ڈھونڈنے میں مدد کریں گے اور لاہور کے پرانے شہر کی گلیوں جیسی تنگ گلیوں تک لے جانے میں ہماری رہنمائی کریں گے۔

میر احمد بتاتے ہیں کہ ’ہم جلد ہی ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ درویش کو دیکھ کر احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ درویش نے انہیں عربی میں مخاطب ہوکر کہا کہ وہ ہمیں ایک رات گزارنے کے لیے جگہ فراہم کریں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ لوگ ضرور اس درویش کے شاگرد رہے ہوں گے۔ وہ جلد ہی ہمارے لیے جگہ ڈھونڈ کر درویش کا حکم بجا لائے۔ درویش جیسے ہی وہاں سے رخصت ہونے لگے تو میں نے اپنے بٹوے سے کچھ پیسے نکال کر دینا چاہے جس پر وہ کافی برہم ہوئے اور ہمیں کہنے لگے کہ انہوں نے ہماری مدد پیسوں کے لیے نہیں کی‘۔

میر احمد اپنے مینؤل کیمروں کی کلیکشن دکھا رہے ہیں—تصویر بشکریہ لکھاری
میر احمد اپنے مینؤل کیمروں کی کلیکشن دکھا رہے ہیں—تصویر بشکریہ لکھاری

جب یہ چاروں ترکی سے چند روز میں اردن پہنچے تو اس وقت حج کا موسم تھا، اسی وجہ سے انہوں نے ہر جگہ عربی و عجمی مسافروں کی ایک بڑی تعداد کو پایا جو سعودی عرب جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ جب وہ اردن میں مٹرگشتی کر رہے تھے تب ایک پولیس اہلکار ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا وہ یروشلم جانا چاہتے ہیں، جسے وہاں کی مقامی زبان میں جیروش پکارا جاتا ہے۔ ان دنوں یروشلم اردنی حکومت کے زیرِ انتظام تھا۔ میر احمد کہتے ہیں کہ، ’ہم نے اسے کہا کہ اردن داخل ہوتے وقت غلام محمد کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا‘۔

خوش قسمتی سے پہاڑیاں ریتیلی تھیں اس لیے گاڑی کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا اور غلام بھی صحیح سلامت تھے۔ انہوں نے گاڑی کی مرمت کروا کر اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر مرمتی کام میں توقع سے زیادہ وقت لگ گیا۔

’حادثے اور گاڑی کے مرمتی کام کے باعث ہمیں اردن میں ہی ٹھہرنا پڑا اور ہم یروشلم نہ جاسکے'۔ میر احمد مسجد اقصیٰ کی زیارت نہ کرپانے پر آج بھی افسوس کرتے ہیں۔

ان دوستوں کی اگلی منزل عراق تھی۔ اردن سے عراق جاتے وقت انہیں ریت کے طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس کے بارے میں میر احمد کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’میں نے آج تک ایسا ریت کا طوفان نہیں دیکھا۔ طوفان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ہم 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر گاڑی کو دوڑا ہی نہیں پارہے تھے اور اس طوفان کی تصاویر نہ کھینچنے کا مجھے آج بھی افسوس ہے۔ اس وقت میرے پاس لیکا ایم 3 تھا جو ان دنوں سب سے بہترین مینؤل کیمروں میں سے ایک مانا جاتا تھا، لیکن چونکہ ہم سب اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار تھے اس لیے تصاویر کھینچتے بھی تو کیسے؟ ویسے بھی مینؤل کیمرا استعمال میں اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ آج کل کے ڈیجیٹل کیمرے استعمال میں آسان ہیں‘۔

میر احمد بتاتے ہیں کہ چند گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد وہ بغداد پہنچے جہاں سے انہوں نے کاظمین کی راہ لی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا اگلا اسٹاپ شہر نجف اور پھر کربلا تھا۔ نجف میں موجود تبت سے آئے چند سیاحوں نے ہمیں عظیم تاریخی مسجد صلاح دیکھنے کا مشورہ دیا۔ تاریخی اعتبار سے یہ مسجد انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام متعدد بار آئے ہیں اور نماز ادا کرچکے ہیں۔

پھر اچانک ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بتانے لگے کہ 'میں کربلا میں اپنی تصویر کھنچوانے کے لیے فوٹوگرافی اسٹوڈیو گیا‘۔

کچھ دنوں تک عراق گھمنے پھرنے کے بعد ان کا گروہ ایران روانہ ہونے کے لیے تیار تھا۔ میر احمد بتاتے ہیں کہ جیسے ہی وہ ایران کی طرف بڑھے تو انہیں سرحد پر کوئی تقسیمی باڑ نظر نہیں آئی بلکہ سڑک پر صرف لوہے کا دروازہ نصب تھا۔ سرحد پر پولیس اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ چونکہ رات ہوگئی ہے اس لیے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ میر احمد اور ان کے دوست لگاتار 10 گھنٹوں سے ڈرائیونگ کررہے تھے اور تھکن سے ان کا بُرا حال ہورہا تھا، اور گیٹ بند دیکھ کر میر احمد نے فارسی میں سرحد پر موجود محافظوں پر چیخنا چلّانا شروع کردیا۔ میر احمد ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مجھے چیختا چلّاتا دیکھتے ہی انہوں نے لمحے بھر میں دروازہ کھول دیا۔ جس وقت کسٹم افسران ہماری گاڑیوں کا جائزہ لے رہے تھے تب میں نے اپنے دوستوں کو ان سے انگریزی میں بات کرنے کا مشورہ دیا اور پھر جلد ہی میں نے ایک افسر کے منہ سے یہ جملہ سنا کہ ’یہ لوگ اسمگلر نہیں ہیں۔‘

وہاں سے یہ گروہ ایران افغان سرحد پر موجود اسلام قلعہ سے گزرتے ہوئے اپنی اگلی منزل افغانستان میں داخل ہوئے اور رات ڈھلنے سے قبل قندھار پہنچ گئے۔ میر احمد بتاتے ہیں کہ ’ہم وہاں بس ایک یا 2 دن ہی رکے تھے۔ ہمارے سفر کو شروع ہوئے تقریباً 2 ماہ گزر چکے تھے اور ہم سفری تھکاوٹ سے چُور اور ترکی و اردن میں پیش آنے ولے حادثات کے باعث تاخیر کا شکار تھے۔ اس لیے افغانستان میں ہم نے پاکستان کے کونسل جنرل سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں اور جرمن پاسپورٹ پر سفر کر رہے ہیں تو انہوں نے جلد سے جلد ایگزٹ اسٹیمپ لگوانے میں ہماری کافی مدد کی‘۔

چمن بارڈر پہنچنے پر اقبال شاہ نے بس پکڑی اور پشاور کی طرف چل دیے مگر ہماری ملاقات ان کے والد سے ہوئی جو ہم 3 دوستوں کو کوئٹہ تک لے جانے کے لیے ہمیں لینے آئے تھے، اور پھر یوں جرمنی سے شروع ہونے والا روڈ ایڈونچر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

میر احمد اس سفر کے بعد اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ پھر سے یورپ گھومنے پھرنے گئے لیکن دوستوں کے ہمراہ 1967ء کا روڈ ٹرپ ان کے ذہن میں دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی تازہ ہے۔ بلاشبہ نوجوانی، ایڈونچر اور جوکھم بھرے کاموں سے خوبصورت یادیں جنم لیتی ہیں۔


یہ مضمون 26 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں