چین میں پاکستانی طلبہ مشکلات کا شکار، ایک مرتبہ پھر حکومت سے مدد کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
4 پاکستانی طلبہ میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
4 پاکستانی طلبہ میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

چین میں موجود پاکستانی طلبہ نے مختلف ویڈیوز میں حکومت پاکستان سے ایک مرتبہ پھر مدد کی اپیل کی ہے اور پاکستان واپس لے جانے کا مطالبہ کردیا۔

ہوبے یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس میں زیرِ تعلیم طلبہ نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں بتایا کہ ان کی یونیورسٹی شانگ یانگ کے علاقے میں واقع ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر ووہان سے 2 سے 3 گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والے طالبہ نے کہا کہ جو وائرس ووہان سے شروع ہوا وہ اس شہر تک پہنچ چکا ہے، ویسے تو پاکستان میں عموماً جو بھی خبر آرہی ہے اس میں ووہان میں انفیکشن سے متعلق بتایا جارہا ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہمارا شہر اور یونیورسٹی بھی متاثر ہے۔

طالبہ نے کہا کہ یہاں کے طلبہ کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ووہان میں طلبہ موجود ہیں جبکہ دور دور تک ہماری بھی کوئی امداد نہیں کی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے یہاں سے خود جانے کی کوشش کی، کسی نے ہماری مدد نہیں کی، یہاں کی صوبائی حکومت نے چینی حکومت سے رابطہ کرنے کا کہا جبکہ چینی حکومت نے کہا کہ اپنے سفارتخانے سے رابطہ کریں اور ہمارے سفارت خانے نے کہا کہ موت اللہ کے ہاتھ میں ہے یہاں آنی ہو یا وہاں۔

مزید پڑھیں: ووہان میں پھنسے پاکستانی طلبہ کا حکومتِ پاکستان سے مدد کا مطالبہ

اسی ویڈیو میں موجود ہوبے یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس میں زیرِ تعلیم طالب علم ابو عبیدہ نے کہا کہ یہاں موجود پاکستانی طلبہ کی تعداد 100 کے قریب ہے۔

طالب علم نے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں خبریں چل رہی ہیں کہ طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے کھانا اور ضروریات زندگی کی اشیا فراہم کی جارہی ہیں حالانکہ ایسی کسی خبر کا سچ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اپنا کھانا ایک محدود مقدار میں موجود ہے جس پر ہم فی الحال گزارا کررہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ بعد میں کوئی 'مال' وغیرہ کھل بھی جائے تو ہمارا رابطہ چینی شہریوں سے ہوگا اور یہ وائرس زیادہ تر انہی میں موجود ہے کیونکہ وہی ایسی چیزیں اور جنگلی جانور وغیرہ کھاتے ہیں۔

علاوہ ازیں طالبہ نے کہا کہ کچھ ویڈیوز ایسی بھی وائرل ہورہی ہیں جس میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ مارکیٹیں نئے سال کی وجہ سے بند ہیں لیکن نیو ایئر ختم ہوچکا اس کے باوجود کسی نے کوئی دکان نہیں کھولی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے طالبہ نے کہا کہ اگر ایک سے 2 دکانیں کھلی بھی ہیں تو وہاں مہنگی اشیا فروخت کی جارہی ہیں، جو بطور غیر ملکی طلبہ ہم نہیں خرید سکتے۔

ویڈیو میں طالب علم نے کہا کہ سفارت خانے سے رابطہ کیا تو وہ فون نہیں اٹھاتے، 2 سے 3 روز سے فون کررہے ہیں لیکن فون پر رابطہ نہیں ہورہا، اگر کسی کا فون اٹھا بھی لیں تو بہت بری طرح بات کرتے ہیں۔

چین میں موجود کراچی سے تعلق رکھنے والی طالبہ مہر النسا اعجاز نے کہا کہ جیسا میڈیا میں دیکھایا جارہا ہے یہاں کے حالات اس سے بہت زیادہ خراب ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کی حکومت کس چیز کا انتظار کررہی ہے، ابھی 4 طلبہ متاثر ہوئے ہیں جب کوئی مرجائے گا تو پھر آکر ہمیں یہاں سے لے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پر ذہنی طور پر اتنے پریشان ہوچکے ہیں کہ ہمیں خوف سے نیند نہیں آتی، ہم پوری پوری رات جاگتے ہیں، 3 دن 3 راتیں ہوگئی ہیں ہم یہاں سکون سے سوئے نہیں ہیں۔

طالبہ نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی کہ جتنا جلدی ہوسکے ہمیں یہاں سے آکر لے جائیں اس سے پہلے کہ خدانخواستہ ہم میں سے کوئی مرجائے۔

ایک اور ویڈیو میں چین کے صوبہ ہوبے میں موجود پاکستانی طلبہ نے بتایا کہ وہ ووہان سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جنگ ژو شہر میں مقیم ہیں اور اب ان کے شہر میں بھی کورونا وائرس شدت اختیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پاکستانی طلبہ کے وائرس سے متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ جلد از جلد یہاں سے ریسکیو کیا جائے تاکہ اس لاعلاج بیماری سے بچ سکیں۔

ایک اور طالبہ نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وائرس جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں ہم بھی اس کا شکار نہ ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں موجود طلبہ ذہنی طور پر شدید پریشان ہیں اور جتنا زیادہ یہ وائرس پھیل رہا ہے خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں 4 پاکستانی طلبہ میں کورونا وائرس کی تصدیق

طالبہ نے کہا کہ جس طرح دیگر ممالک اپنے طلبہ کو یہاں سے لے جاچکے ہیں اس طرح پاکستان بھی ہمیں یہاں سے لے کر جائے۔

اس سے قبل ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا تھا کہ حکومت چین میں موجود پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔

عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس جیسے چیلنج کا سامنا کرنے والے ملک چین کی ہر ممکن تعاون کے لیے پاکستان تیار ہے، اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی اقدامات قابل تحسین ہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے چین کے شہر ووہان میں موجود 4 پاکستانی طلبہ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ چین میں 28 سے 30 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں بڑی تعداد طلبہ کی ہے جو مختلف صوبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ وائرس کے مرکز شہر ووہان میں 500 کے قریب پاکستانی طلبہ ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل چینی شہر ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے وائرس کے خوف اور خوراک کی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فوری مدد کی درخواست کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی وجہ سے ہم سب بہت خوف و ہراس کا شکار ہیں، ایک جانب یہ خوف ہے اور دوسری جانب ہمیں خوراک کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے لہٰذا ہماری حکام بالا سے گزارش ہے کہ ووہان میں موجود تمام پاکستانی طلبہ کو کسی بھی طرح یہاں سے نکالا جائے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ فرانسیسی اور امریکی سفارتخانے چین میں موجود اپنے شہریوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کو ووہان سے نکال سکیں اور ہمیں بھی اسی طرح کی مدد درکار ہے تاکہ آپ لوگ ہمیں یہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز (وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔

عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے۔

سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: چین میں مقیم پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں، دفتر خارجہ

کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا دوا دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔

مگر سال 2020 کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین میں اس وائرس کی ایک نئی مہلک قسم دریافت کی جسے نوول کورونا وائرس یا این کوو کا نام دیا گیا۔

عام طور پر یہ وائرس اس سے متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں