’پولیو مہم سے پیسہ ختم کریں، پھر دیکھیں ملک سے پولیو ختم ہوتا ہے کہ نہیں‘

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2020
اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 120 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکر شہید ہوچکی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 120 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکر شہید ہوچکی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

خیبرپختونخوا کے علاقے صوابی میں پولیو مہم کے دوران 2 خواتین کے قتل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی صوبائی صدر نے کہا ہے کہ جس طرح پولیو مہم کے لیے پیسہ دیا جاتا ہے ملک سے 100 سال میں بھی پولیو ختم نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل صوابی میں سیکیورٹی کے بغیر کام کرنے والی پولیو ٹیم پر حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں شکیلہ نامی لیڈی ہیلتھ ورکر موقع پر جبکہ غنچہ بیگم ہسپتال پہنچ کر دم توڑگئی تھیں۔

اس بارے میں ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی صوبائی صدر عائشہ حسن نے بتایا کہ ’دونوں خواتین ہیلتھ ورکرز کی ملازمت مستقل تھی لیکن اس کے باوجود اگر کسی کو پولیو مہم کے دوران قتل کردیا جاتا ہے تو ان کے اہل خانہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: صوابی میں فائرنگ سے 2 پولیو ورکرز جاں بحق

انہوں نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ حکام دفتروں میں بیٹھ کر کچھ نہیں کرتے اور پولیو مہم کے دوران غریب ہیلتھ ورکر یا پولیس والے مارے جاتے ہیں۔

صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ جس طرح پولیو مہم کے لیے پاکستان کو پیسہ دیا جاتا ہے اور اس سے بدعنوان لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کی وجہ سے 100 سال تک بھی ملک سے پولیو ختم نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ خواتین ہیلتھ ورکز کے قتل پر اسے ذاتی دشمنی قرار دیا جاتا ہے لیکن جن علاقوں میں ان خواتین کو بغیر کسی سیکیورٹی کے بھیجا گیا وہ انتہائی خطرناک ہیں جہاں سیکیورٹی ہونے کے باجود مرد حضرات بھی کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔

عائشہ حسن کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے لیڈی ہیلتھ ورکز سے پوچھا کہ آپ ایسے خطرناک علاقوں میں جانے پر رضا مند کیوں ہوجاتی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں نوکریوں سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: پولیو رضاکار نشانے پر

لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی صوبائی صدر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ قتل کی گئی دونوں خواتین کے 4، 4 بچے تھے جو اپنی ماں کو یاد کررہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کررہی اور اگر ہم احتجاج کریں تو ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے لیکن اب ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔

صوبائی صدر نے کہا کہ قتل کی گئی ورکرز کے جنازے میں بھی کسی حکومتی عہدیدار نے شرکت نہیں کی۔

پروگرام کے دوران گفتگو میں عائشہ حسن کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ہیلتھ ورکرز کو خطرناک علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ 200 گھروں میں پولیو کے قطرے پلاتی ہیں، ایسے خطرناک علاقوں میں مردوں کو کیوں نہیں بھیجا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: پولیو ٹیم پر حملہ، ایک اور پولیس اہلکار قتل

انہوں نے بتایا کہ ورکرز سے پوچھا گیا کہ ان کے ساتھ سیکیورٹی کیوں موجود نہیں تھی تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نے ہمیں کہا کہ انہوں نے پولیس کو کال کردی ہے جبکہ پولیس والوں کا کہنا تھا کہ ہمیں سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔

عائشہ حسن نے کہا کہ ’ہم شہر میں خواتین کو سختی سے ہدایت کرتے ہیں کہ سیکیورٹی کے بغیر پولیو مہم میں حصہ لینے سے انکار کردیں لیکن قتل کی گئی خواتین کا تعلق گاؤں سے تھا جو ڈری ہوئی تھیں جنہوں نے سپر وائزر کو سیکیورٹی نہ ہونے کا کہا تو سپروائزر نے جب اس بارے میں ڈاکٹر کو بتایا تو ڈاکٹر نے ان ورکرز کو کہا کہ کچھ نہیں ہوتا آپ چلی جائیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ شہروں میں موجود ورکرز میں ایسے مسائل کا سامنا کر کے کافی حد تک انکار کی جرات آگئی ہے لیکن ان خواتین کا تعلق بہت غریب گھرانوں اور پسماندہ علاقوں سے تھا۔

عائشہ حسن نے کہا کہ اپنی جان پر کھیل کر پولیو مہم میں کام کرنے والی غریب خواتین کو محض 500، 500 روپے دے دیے جاتے ہیں جبکہ اس پروگرام سے منسلک افسران لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے میں پولیو رضاکار قتل

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’یہی ڈاکٹرز پولیو ختم نہیں ہونے دیتے کیوں کہ اگر پولیو ختم ہوگیا تو ڈالرز کہاں سے آئیں گے اور یہ لاکھوں روپے کہاں سے حاصل کرسکیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں پولیو مہم سے پیسے کو ختم کردیا جائے تو دیکھیے گا کہ پولیو ختم ہوتا ہے کہ نہیں لیکن حکومت اسے خود ختم نہیں کرنا چاہتی‘۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پولیو مہم کے دوران قتل کیے جانے والے ہیلتھ ورکرز کو معاوضے کی ادائیگی بہت مشکل سے کی جاتی ہے اور اپنا ہر حق مانگنے کے لیے ہمیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید ہونے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے اہلِ خانہ کو معاوضے کی ادائیگی میں برسوں لگ جاتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ ورکرز کو بھی شہدا پیکج دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: فیصل آباد میں پولیو ورکر قتل

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کی راہ میں قتل ہونے والے ہیلتھ ورکرز کو بھی اسی طرح شہدا پیکج دیا جائے جس طرح سیکیورٹی اداروں کو دیا جاتا ہے۔

خواتین ہیلتھ ورکرز کے قتل کی تحقیقات کا حکم

علاوہ ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے صوابی میں پولیو مہم کے دوران خواتین ہیلتھ ورکرز کے قتل کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کردی جو 3 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

مذکورہ کمیٹی صوبائی سیکریٹری داخلہ اسلام زیب، ڈپٹی انسپکٹر جنرل کاشف عالمی اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ شریف حسین شامل ہیں۔

مذکورہ کمیٹی واقعے میں سیکیورٹی کی غفلت کا جائزہ لے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات ہونے سے روکنے کے لیے تجاویز مرتب کرے گی۔

اس حوالے سے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے پولیو کے کوآرڈنیٹر رانا صفدر نے جائے وقوع کا معائنہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا، انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد کچھ علاقوں میں پولیو مہم روک دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قتل ہونے والی دونوں خواتین کو شہدا پیکج دینے کے لیے دستاویزی کام کیا جارہا ہے۔

پولیو ٹیمز پر حملے

خیال رہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں پولیو مہم کے دوران ہیلتھ ورکرز پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں اور یہ حملے ملک سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

واضح رہے کہ 2012 سے اب تک اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 120 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکر شہید ہوچکی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کی شروع کی جانے والی پولیو مہم میں حصہ لیتے ہوئے قتل کی جانے والی ان ہیلتھ ورکرز کے اہلِ خانہ کو معاوضے کے حوالے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے قبل 18 دسمبر 2012 کو پشاور، موچکو، کراچی کے علاقے گلشنِ بونیر اور راجہ تنویر کالونی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نیتجے میں 4 خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوگئے تھے۔

مذکورہ واقعات میں جانی نقصان ہونے پر عالمی ادارہ صحت نے عارضی طور پر فیلڈ ورک بھی روک دیا تھا۔

پشاور میں 28 مئی 2013 کو پولیو ورکرز پر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں، اس کے بعد 16 جون کو صوابی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیو رضاکار زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

بعدازاں 13 دسمبر کو ضلع جمرود میں فائرنگ کے باعث ایک پولیو ورکر ہلاک ہوگیا تھا۔

اسی طرح کراچی کے علاقے قیوم آباد میں 21 جنوری 2014 کو انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کے بعد 9 دسمبر 2014 کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں نامعلوم افراد نے پولیو ویکسی نیشن ٹیم کے ایک رکن کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

30نومبر 2015 کو ضلع صوابی ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈسٹرکٹ پولیو کوآرڈینیٹر ڈاکٹر یعقوب ہلاک اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے بعد 24 مئی 2017 کو بھی بنوں میں بھی پولیو رضاکار پر فائرنگ کا واقعہ سامنے آیا اور ایک پولیو رضاکار کو قتل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں