کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرسکتا ہے؟

01 فروری 2020
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — رائٹرز فوٹو
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — رائٹرز فوٹو

دنیا بھر میں 10 ہزار سے زائد افراد کو متاثر اور 213 اموات کا باعث بننے والا 2019 ناول کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے؟

گزشتہ ماہ چین کے شہر ووہان میں سامنے آنے کے بعد اب متعدد ممالک تک پھیل جانے والے اس وائرس کے بارے میں ایک ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک گروپ اس وبائی مرض سے کافی حد تک محفوظ نظر آتا ہے اور وہ ہے بچے۔

یہ دعویٰ طبی جریدے 'نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن' میں شائع تحقیق میں سامنے آیا جس میں ناول کورونا وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہونے والے 425 افراد کا تجزیہ کیا گیا اور ان میں سے کوئی بھی 15 سال سے کم عمر نہیں تھا۔

اس وقت مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور جنوری کے وسط تک سب سے کم عمر ہلاک ہونے والے مریض کی عمر 36 سال تھی۔

اگرچہ ایسا بہتر ڈیٹا تو موجود نہیں جس سے معلوم ہوسکے کہ کتنے بچے اب تک اس وائرس سے متاثر ہوئے (ابتدائی 425 مریضوں کے بعد)، مگر یہ واضح ہے کہ یہ شرح صفر فیصد نہیں، کیونکہ بیجنگ میں 9 ماہ کے بچے میں اس کی تشخیص کی تصدیق مقامی طبی حکام نے کی ہے۔

مگر اس تحقیق میں ابتدائی مریضوں کی جانچ پڑتال سے اس وائرس کے بارے میں اشارے ملتے ہیں کہ یہ کیسا ہے اور کون اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔

یہ تحقیق دیگر کورونا وائرسز جیسے 'سارس' سے موازنے کے لیے ایک اور نکتہ بھی فراہم کرتا ہے۔

امریکا کی وینڈربلیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق کے مطابق 2003 میں چین سے پھیلنے والے سارس کے شکار افراد میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد ڈرامائی حد تک کم تھی اور 13 سال سے کم عمر بچوں میں اس کی شدید علامات بھی زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوئی تھیں۔

اور ایسا ممکن ہے کیونکہ بائیولوجی کے اصولوں کے مطابق بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں 2019 ناول کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوسکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے خلیات اس وائرس کے لیے زیادہ اچھے میزبان نہیں ہوتے اور کورونا وائرس کے لیے اپنی نقل بنانے اور دوسرے افراد میں منتقل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔

محققین نے مزید بتایا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر ان میں علامات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ شدید نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طبی نگہداشت کی کم ضرورت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکا میں سیزنل فلو کے دوران متعدد بچے انفلوائنزا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس مرض سے بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔

طبی ماہرین کے خیال میں بچوں کا ماحول ممکنہ طور پر اس حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے، یعنی بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں عام کورونا وائرسز کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے، جس سے ان کے اندر ایک مخصوص قسم کی مدافعتی طاقت پیدا ہوسکتی ہے مگر وہ زندگی بھر ساتھ نہیں رہتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر بچے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری سے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل بھی بچوں میں اپ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے۔

مگر محققین نے خبردار کیا کہ فی الحال یہ صرف خیالات ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے اس نئے وائرس سے متاثر نہیں ہوسکتے یا دیگر افراد میں منتقل نہیں کرسکتے۔

انہوں نے بتایا کہ زندگی کے معمولات لوگوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے ہاتھوں کی اچھی صفائی مددگار ہوتی ہے، صحت بخش غذا کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، چاہے وائرس کوئی بھی ہو، مگر اچھے معمولات صحت مند رکھ سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں