عمران فاروق کی بیوہ کا عدالت میں بیان، انصاف کی فراہمی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 03 فروری 2020
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق کو لندن میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق کو لندن میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کے دوران بیوہ عمراہ فاروق نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی، جہاں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مقتول رہنما عمران فاروق کی بیوہ نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا، اس دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز بھی سوالات کے لیے موجود تھے۔

بیوہ عمران فاروق نے بیان ریکارڈ کرانا شروع کروایا تو وہ بیان حلفی دیتے وقت آبدیدہ ہوگئیں، اس پر جج شاہ رخ ارجمند نے کہا کہ آپ نے حوصلے اور صبر سے اپنا بیان ریکارڈ کرانا ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ تسلی رکھیں، آپ عدالت کو جو بتانا چاہتی ہیں ایک ایک لائن لکھواتی جائیں۔

بعد ازاں بیوہ عمران فاروق نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ عمران فاروق کی لاش کی شناخت کے لیے پولیس انہیں مردہ خانے لے کر گئی جبکہ عمران فاروق کو پاکستان میں دفن کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی

بیوہ عمران فاروق کا کہنا تھا کہ وہ لیکچرار تھیں اور 2004 میں لندن میں عمران فاروق سے ان کی شادی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر کو 2016 میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ نوکری سے گھر آرہے تھے، واقعے والے دن 4 بجے عمران فاروق نے مجھے فون کال کی، میں نے ڈبل روٹی لانے کا کہا، تاہم جب گھر واپسی میں تاخیر پر فون کیا تو ان کا فون بند ملا۔

بیوہ عمران فاروق نے کہا کہ میں نے سوچا کہ شوہر کو فون کرکے پوچھوں کہ وہ گھر کیسے آئیں گے کیونکہ گھر کے باہر پولیس کھڑی ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ اسٹیشن سے جاکر شوہر کو لے آؤں، تاہم جب میں نے دروازہ کھولا تو پولیس ہمارے گھر میں داخل ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ اسی دوران میں نے یہ نوٹس کیا کہ گھر کے باہر ایک زخمی شخص پڑا ہے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ زخمی شخص میرا شوہر ہے۔

بیوہ عمران فاروق نے کہا کہ پولیس نے مجھے گھر سے دوسری جگہ منتقل کردیا اور مجھے عمران فاروق کو دیکھنے تک نہیں دیا گیا۔

عدالت میں بیان کے دوران ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان میں اپنے سسرال کال کرکے واقعے کے بارے میں بتایا، (جس کے بعد) پولیس کی طرف سے بتایا گیا کہ میرے شوہر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔

بیوہ عمران فاروق کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ عمران فاروق پر 2 لڑکوں نے چاقو سے حملہ کیا جبکہ مجھے ہمسایوں نے بتایا کہ دو لڑکوں نے پہلے میرے شوہر کے ساتھ مصافحہ کیا، پھر میرے شوہر کے پیٹ میں چھریاں ماریں اور سر پر اینٹوں سے وار کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

انہوں نے کہا کہ 9 سال ہوگئے ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ انہیں انصاف ملے، اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیس کے حوالے سے آپ کچھ اور عدالت کو بتانا چاہتی ہیں، آپ اس قتل کے محرکات اور ملزمان کے بارے میں عدالت کو کچھ بتانا چاہتی ہیں؟

جس پر بیوہ عمران فاروق نے کہا کہ ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا گیا، بچوں سے اس کا باپ چھین لیا گیا، اس پر جج نے شمائلہ عمران سے کہا کہ پراسیکیوٹر اور ملزمان کے وکلا کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ کچھ منٹ بعد ان سے سوالات پوچھ لیں۔

عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ نے اپنا بیان مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے اور یہ بہت ظلم تھا کہ عمران فاروق کو قتل کر دیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اس کیس میں انصاف کیا جائے جس پر جج جج شاہ رخ ارجمند نے کہا کہ انشااللہ انصاف ہوگا، ہم انصاف کے لیے ہی بیٹھے ہیں۔

عمران فاروق کی بیوہ کے بیان پر جرح بھی مکمل کر لی گئی۔

سماعت کے دوران دوسرے برطانوی گواہ ڈاکٹر تھامسن کا بیان بھی قلمبند کیا گیا۔

بیان قلمبند کراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران فاروق کے جسم پر زخموں کے نشان تھے، ان کے چہرے، گردن اور پیٹ پر زخم تھے۔

انہوں نے کہا کہ مقتول ڈاکٹر عمران فاروق کو 6 بج کر 37 منٹ پر مردہ قرار دیا، پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

وکلا صفائی نے گواہ پر کوئی جرح نہ کی۔

سینئر فنگر پرنٹ ماہر این کنِنگھم نے بھی بطور گواہ بیان ریکارڈ کرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے چاقو کے دستے پر فنگر پرنٹس کی تصاویر کو بہتر کرکے موازنہ کیا، انگلیوں کے نشان محسن علی سید کے تھے۔

وکیل صفائی نے سوال کیا یہ بات درست ہے کہ چاقو پر خون کے نشانات نہیں تھے؟ جس پر این کنِنگھم نے کہا کہ میں نے اپنی رپورٹ بنانے کے لیے چاقو نہیں اس کی تصاویر دیکھیں۔

جج شاہ رخ ارجمند نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام 17 برطانوی گواہوں کے بیانات چار دنوں میں ریکارڈ کر لیں، اگر آج کوئی اور گواہ ہے تو اس کا بیان بھی ریکارڈ کر لیتے ہیں۔

کیس کی سماعت میں مغرب کی نماز کا وقفہ کر دیا گیا۔

وقفے کے بعد شواہد اکٹھے کرنے والے چوتھے برطانوی گواہ فرسبی کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ چاقو اور دو آدھی اینٹیں کرائم سین کے پاس جھاڑیوں سے برآمد ہوئیں، چاقو اور اینٹ پر خون کے نشانات نہیں تھے تاہم کرائم سین سے اکٹھے کیے گئے کچھ دیگر شواہد پر خون کے نشانات ملے۔

سماعت کے دوران پانچویں برطانوی گواہ ڈی سی کارنر کا بیان بھی قلمبند کیا گیا۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی اور 7 برطانوی گواہوں کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر لیا۔

برطانوی گواہ وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

عمران فاروق قتل کیس

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: برطانوی پولیس نے انتہائی اہم شواہد جمع کرادیے

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو 3 مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔

اسی سال 28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: بانی متحدہ کی بذریعہ اشتہار عدالت طلبی سے متعلق رپورٹ جمع

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

علاوہ ازیں 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو اکتوبر کے مہینے تک ٹرائل مکمل کرنے کا کہا حکم دیا تھا تاہم استغاثہ کی جانب سے عدالت سے متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی، جس کی وجہ برطانوی حکومت کا شواہد فراہم کرنے میں رکاوٹ بننا بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ملزم کو سزائے موت سنا دی جائے گی۔

تاہم گزشتہ سال برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، 3 تفتیش کار اور دیگر ماہرین و عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں