امریکی فوج افغانستان میں قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں، امریکی صدر

اپ ڈیٹ 06 فروری 2020
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مدت صدارت کے آخری اسٹیٹ آف یونین خطاب کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عزم کا اعادہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور اپنی عوام سے کہا کہ ان کی فوج دوسروں کے لیے قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے خطاب میں بہت تھوڑا حصہ خارجہ پالیسی کے لیے مختص کرتے ہوئے امریکی صدر نے گزشتہ ماہ عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا کریڈٹ لیا اور ساتھ ہی امن کے لیے اپنے عزم کا بھی اظہار کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم مشرق وسطیٰ میں امریکی جنگ کا اختتام کرتے ہوئے امریکیوں کی زندگیوں کا دفاع کررہے ہیں، ہم امریکا کی سب سے طویل جنگ (افغان جنگ) کے خاتمے اور اپنے فوجیوں کو واپس وطن لانے کے لیے کام کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے طالبان سے امن معاہدے سے قبل کارروائیاں روکنے کے مطالبات

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے لیے متعدد کوششیں بھی کرچکے ہیں تاہم اب بھی 13 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی جنگجوؤں کے عزم اور بہادری کی وجہ سے ان کی حکومت افغانستان میں ’زبردست پیشرفت‘ کرسکی، انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے منتظر نہیں کیوں کہ اس میں زیادہ تر بالکل بے قصور ہیں۔

انہوں نے ان لوگوں سے بھی اختلاف کیا جو جنگ زدہ ملک، افغانستان میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے امریکی فوجیوں کی وہاں موجودگی چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان نے امریکا پر افغان امن مذاکرات روکنے کا الزام عائد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ دوسرے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح اپنی خدمات دیں، یہ جنگجو ہیں جو دنیا میں سب سے بہترین ہیں اور یا تو لڑ کر جیتنا چاہتے ہیں یا بکل کوئی لڑائی نہیں چاہتے‘۔

افغان جنگ کے مذاکرات کے ذریعے حل کے حوالے سے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی فوجیوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور اب امن مذاکرات جاری ہیں‘۔

خیال رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے امریکا سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جو جلد طے پانے کی توقع ہے۔

معاہدے طے پانے کی صورت میں امریکا پر امن طریقے سے 18 سالہ افغان جنگ کا اختتام کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلا سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے طالبان سے مذاکرات بحال، قطر میں مذاکرات کا پہلا دور

اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان ایک سال سے طویل عرصے سے مذاکرات جاری ہیں، جو گزشتہ سال 2 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے معطل ہوگئے تھے تاہم گزشتہ برس دسمبر سے ایک مرتبہ پھر بات چیت کا سلسلہ بحال ہوگیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں