سینیٹ کمیٹی نے احسان اللہ احسان کے 'فرار' ہونے پر رپورٹ طلب کرلی

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت ہوا — فوٹو بشکریہ سینیٹ ویب سائٹ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت ہوا — فوٹو بشکریہ سینیٹ ویب سائٹ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

سینیٹر جاوید عباسی نے یہ معاملہ سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس کے دوران اٹھایا جہاں انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ کس طرح ہائی پروفائل شخص قید سے فرار ہوا۔

کمیٹی نے وزارت داخلہ کو احسان اللہ احسان کے فرار ہونے اور ان کے آڈیو پیغام پر 3 روز میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: متاثرین کی حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست

واضح رہے کہ چند روز قبل میڈیا میں خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ٹی ٹی پی کے سابق رہنما مبینہ طور پر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور بعد ازاں انہوں نے پیغام بھی جاری کیا تھا۔

کمیٹی نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (ترمیمی) بل 2019 کی منظور بھی دی۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کے کم از کم ایک ایک نمائندوں کو قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے۔

بل کو وزارت پارلیمانی امور اعظم خان سواتی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

کمیٹی نے اسلام آباد میں گداگری کی روک تھام بل 2019 اور زیر حراست، گرفتار یا زیر حراست تحقیقاتی بل 2019 کے تحت افراد کے حقوق کو ملتوی کردیا۔

اجلاس میں بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جاری کرفیو کی مذمت کی گئی اور بین الاقوامی برادری سے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی بحران کا نوٹس لینے پر زور دیا گیا۔

کمیٹی نے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اور چینی حکومت اور عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اہم رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی

اجلاس کے دوران آن لائن رقم کی منتقلی کی سہولت کا استعمال کرتے ہوئے نامعلوم افراد کی جانب سے لوگوں کو لوٹنے کے لیے جعلی کالز کرنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

کمیٹی نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو اس قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو آگاہ کرنے کا کہا کہ کس قانون کے تحت موبائل فون کمپنیاں مالی معاملات دیکھ رہی ہیں اور انہیں کس قانون کے تحت اس کے لائسنس دیے گئے ہیں۔

کمیٹی نے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے گائیڈ لائنز طلب کرلیں تاکہ ان تمام سرگرمیوں کو ریگولیٹ کیا جاسکے اور ان کا غلط استعمال روکا جاسکے۔

رحمٰن ملک نے اجلاس کو بتایا کہ انہوں نے اسٹیٹ بینک کے گورنر سے بات کی تھی جنہوں نے آن لائن رقم کی منتقلی کے معاملات پر فکر مند حکام کی معاونت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

انہوں نے اجلاس میں موبائل سیلیولر کمپنی جیز کا نمائندہ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور پی ٹی اے کو کمپنی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والی تمام سیلیولر کمپنیاں جو مالی ٹرانزیکشنز بھی دیکھتی ہیں، پیش ہونی چاہیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں