وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ملائیشیا سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے ملائیشیا اور ترکی جیسے دوستوں کو وقتی طور پر مایوسی ضرور ہوئی تھی لیکن عمران خان کے حالیہ ملائیشیا کے دورے اور اب ترک صدر جناب طیب اردوان کی پاکستان آمد اور اہم شعبوں میں تعاون کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے تجدیدی عمل سے مایوسی کے تمام بادل چھٹ گئے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ترک صدر اب پاکستانی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ بار خطاب کرنے والے غیر ملکی سربراہ بن چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2009ء، 2012ء اور 2016ء میں بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرچکے ہیں۔ یوں یہ ان کا پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے چوتھا خطاب ہوا اور پاکستان کا 10واں دورہ۔

یہ مستقل مزاجی ترکی کی پاکستان سے مستقل بنیادوں پر گہرے تعلقات اور سیاسی نوعیت سے بالاتر دوستی کی عکاس ہے۔ تاریخی تناظر میں ترکی پاکستان کا ایک آزمودہ دوست ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ترکی ان ممالک میں شامل تھا جس نے نہ صرف پاکستان کو خوشدلی سے قبول کیا بلکہ دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھا کر دونوں ممالک کے درمیان عظیم تعلقات کی بنیاد رکھی۔

جب ترک سفیر بانی پاکستان قائدِاعظم کے پاس اپنی اسناد پیش کرنے آئے تو قائدِاعظم نے دونوں ممالک کے درمیان روحانی، تہذیبی، جذباتی اور ملی رشتوں کا ذکر کیا اور یہ رشتہ 73 برسوں سے قائم و دائم ہے۔

ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں طے پایا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے‘۔

ہر مشکل موقع پر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے حق ادا کیا۔ ترکی میں دائیں بازو یا بائیں بازو یا فوجی آمریت ہی کیوں نہ ہو، ہمارے ساتھ ترکی کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی غیر مشروط حمایت کرتا رہا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان کا حالیہ یہ بیان کہ ’ترکی کے لیے کشمیر کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان کے لیے ہے‘، واضح اشارہ ہے کہ ترکی کی سعودی عرب کی نسبت علاقائی سفارتی پوزیشن کیا ہے۔

ملائیشیا اور ترکی نے کشمیر کے مسئلے پر ڈٹ کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے بلکہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت بھی کررہے ہیں، اس لیے یہ بہت ہی واضح ہے کہ یہ یکطرفہ محبت نہیں ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1962ء میں ترک اور یونانی قبرصیوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ ترکی نے مسلم قبرصیوں کے تحفظ کے لیے افواج روانہ کردیں۔ جس سے یونان اور ترکی میں بہت بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ تاہم اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے سبب جنگ ٹل گئی، لیکن اس مشکل ترین وقت میں پاکستان نے ترکی کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر ترک مؤقف کی حمایت کی اور ترکی کو مکمل فوجی تعاون کا یقین دلایا۔

اگرچہ کشمیر کی طرح قبرص کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے تاہم ترک قبرصیوں کی حمایت میں پاکستان کا مؤقف ہمیشہ ترکی کی حمایت میں اٹل رہا۔ 1984ء میں قبرص کا مسئلہ نئے سرے سے اقوامِ متحدہ کے سامنے آیا تو پاکستان نے ایک بار پھر ترکی کا ساتھ دیا۔ پاکستان دفاعی معاہدہ بغداد میں ترکی اور عراق کے ساتھ شریک رہا ہے۔

1964ء میں معاہدہ استنبول کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کے نام سے موسوم تنظیم وجود میں آئی، جس نے تینوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیاحتی اور ذرائع آمد و رفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آج کل یہ تنظیم علاقائی معاشی کونسل کہلاتی ہے۔

قصہ مختصر اور بات یہ کہ ترکی پاکستان کا ایسا اتحادی ہے جس کی سرحد پاکستان سے نہیں ملتی لیکن دل اور روح پاکستان سے جُڑے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ یہ دوستی اور محبت چین سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔

یورپ اور ایشیا کے سنگم پر موجود ترکی اس وقت دنیا کی 13ویں بڑی معیشت ہے اور دفاعی اعتبار سے نہایت مضبوط مسلم ملک ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوجی ترکی کے ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ترکی کسی نیوکلئیر تنازعے کی صورت میں نیٹو کے ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔

کئی دیگر شعبوں میں ترکی پاکستان کی معاونت کر رہا ہے خصوصاً پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں ویسٹ مینجمنٹ اور کئی بجلی گھر اور سڑکوں کی تعمیر جیسے منصوبے ترکی کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ لیکن یہ تعاون ابھی ویسا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکا کی نظریں ہر وقت پاکستان پر رہتی ہیں، اور خطے میں بھارت کی حکمرانی کی خواہش رکھنے والا امریکا ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ پاکستان کوئی ایسا کام نہ کرجائے جس کے سبب وہ آگے نکل سکے۔ سی پیک سے متعلق امریکی بیانات اور ارادے اسی خوف سے جڑے ہیں۔

اس بات کو سمجھ لینا ہم سب کے لیے ہی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھنے والے سی پیک کو پاکستان اور چین تنہا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ اس لیے اس پورے منصوبے میں مزید حلیفوں کی ضرورت ہے اور چین کی طرح ترکی جیسا یار بھی اس سی پیک کا حصہ بن جائے تو اس منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔

تعمیران، مائننگ، آئل ریفائننگ اور ایکسپلوریشن سے متعلق ترک تجربہ اس منصوبے کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سیاحت کے شعبے میں ترکی پاکستان کی بے حد مدد کر رہا ہے اور اس کو مزید بڑھایا جانا چاہیے۔

ترکی کو یورپی یونین کی ممبر شپ ملنے کی صورت میں پاکستانیوں کو اس کا بلواسطہ فائدہ حاصل ہوگا جس کے تعلیم، تجارت اور سفارت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے برعکس دہائیوں سے عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی حیثیت عجمیوں کی سی ہے۔ پاک ترک حالیہ 2 طرفہ ایم او یوز میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی روکنے سے متعلق مشترکہ ورکنگ اور قوانین سازی کے ساتھ رسائی کا معاہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

اس کا براہ راست تعلق خطے کی سیکیورٹی، امن اور معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے میں چین، ایران، روس، ترکی اور پاکستان پر مشتمل ایک غیر اعلانیہ بلاک ہر طرح سے پاکستان کے مفاد میں ہے۔

پاکستان کو ہر صورت سی پیک کی تکمیل اور کامیابی کی کوشش کو بار آور کرنا ہے۔ اس کے لیے قابلِ اعتماد ریجنل اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہی پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب پاکستان ترکی کو تیسرا اسٹریٹجک پارٹنر بنالے گا، ورنہ بطور امانت رکھے گئے سعودی ڈالر خزانے پر بوجھ کے علاوہ سی پیک کی رکاوٹ بنے رہیں گے۔

یہ بڑا اہم وقت ہے اور اگر آج ہم نے فیصلہ کرلیا تو یقین جانیے سب کشکول ٹوٹ جائیں گے اور پاکستان امریکی دباو سے بھی آزاد ہوجائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں