کسی نئی جگہ پر سونا بہت مشکل کیوں ہوتا ہے؟

18 فروری 2020
سائنسدانوں نے اس کی دلچسپ وجہ بتائی ہے — شٹر اسٹاک فوٹو
سائنسدانوں نے اس کی دلچسپ وجہ بتائی ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

یقیناً آپ کو بھی اس کا تجربہ ہوا ہوگا، جب آپ شہر سے باہر یا کسی کام کی وجہ سے کسی رشتے دار یا دوست کے گھر رات کو رکنا پڑا ہو ، یا نئے گھر میں پہلی رات کو سونے کے لیے لیٹنے پر نیند آنکھوں سے غائب ہوگئی ہو۔

درحقیقت کسی نئی جگہ پر پہلی رات اکثر افراد کو نیند نہیں آتی، مگر اس کے پیچھے کیا وجہ چھپی ہے؟

اس بات کا جواب امریکا کی براﺅن یونیورسٹی نے دیتے ہوئے اس کے پیچھے چھپی وجہ کو دریافت کیا ہے۔

درحقیقت نیند اب بھی سائنسدانوں کے لیے کسی معمے سے کم نہیں کیونکہ وہ اب تک مکمل طور پر جان نہیں سکے کہ یہ ضروری کیوں ہیں، بس یہ ضرور معلوم ہے کہ نیند کی کمی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

جانور بھی سونے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر کسی جانور کے لیے کئی گھنٹے تک اپنے تحفظ کے لیے سونا مشکل ہو تو کچھ جانوروں نے ایک آنکھ کھول کر سونے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے جیسے ڈولفن، گھریلو مرغیاں اور دیگر، جن کے دماغ کا نصف حصہ ایک وقت میں سوتا ہے۔

جریدے جرنل کرنٹ بائیولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی نئی جگہ نیند نہ آنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے یعنی جانوروں جیسا چوکنا پن۔

آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کسی خطرناک اور ناقابل پیشگوئی ماحول میں سونے کا موقع ملے تو ذہن کس حد تک ہوشیار اور چوکس ہوسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا دماغ ہوٹل کے کمروں، رشتے داروں یا دوستوں کے کمروں اور نئے گھر کو بھی اس خطرے میں شامل کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں پہلی رات سونا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے دوران 35 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں ایک سلیپ لیب میں ایک ہفتے کے فرق سے 2 راتوں کو سونے کی ہدایت کی گئی۔

ان رضاکاروں کے ساتھ ایسی مشینیں بھی منسلک کی گئیں جو کہ دل کی دھڑکن، خون میں آکسیجن لیول، سانس، آنکھوں اور ٹانگوں کی حرکت کے ساتھ دماغ کے دونوں حصوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کررہی تھیں۔

سائنسدانوں نے زیادہ توجہ دماغ کے ایک ایسے رویے پر مرکوز کیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کوئی فرد کتنی گہری نیند سورہا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کمرے میں مداخلت نیند کی گہرائی کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔

سائنسدانوں دماغ کے دونوں حصوں میں فرق کو نہیں دیکھ رہے تھے مگر انہوں نے اسے دریافت کیا، پہلی رات نیند کے دوران رضاکاروں کے دماغ کے بائیں حصے میں زیادہ چوکنا پن نظر آیا۔

خیال رہے کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ دماغ کا بایاں حصہ اجنبی آوازوں کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔

ایک ہفتے بعد رضاکار دوبارہ اس جگہ آئے اور دماغی سرگرمیوں سے عندیہ ملا کہ اب دماغ اس ماحول کو شناسا ہوچکا ہے اور دونوں حصوں میں چوکنا پن کی سطح برابر تھی۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ میں وہیلز اور ڈولفن جیسا سسٹم موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر شہر یا مک سے باہر جانے والے افراد لاشعوری طور پر اپنے دماغوں کو اس اثر سے بچانے کی تربیت دیتے ہوں، کیونکہ ہمارے دماغ بہت لچکدار ہوتے ہیں، یعنی اکثر نئی جگہوں پر جانے والے افراد میں ضروری نہیں کہ پہلی رات نیند نہ آنے کے مسئلے کا سامنا ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں