پی ایم ڈی سی سے متعلق فیصلے کی خلاف ورزی، سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس

اپ ڈیٹ 19 فروری 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) سے متعلق عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا جبکہ وفاقی حکومت نے بحالی کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی۔

ہائی کورٹ میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی عدم بحالی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جس دوران سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فوری عدالت طلب کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد آدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں، اس کے ساتھ ہی عدالت نے علاقہ مجسٹریٹ کو بھی آدھے گھنٹے میں عدالت میں طلب کرلیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی عمارت کو کس کے حکم پر سیل کیا گیا تھا؟

مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی بحال، پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے کا حکم

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایم ڈی سی اور اس کے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، ملازمین نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا گیا ہے اور ملازمین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت صحت نے عمارت سیل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انتظامیہ نے عمارت سیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر وزارت صحت نے پی ایم ڈی سی کی عمارت کو خود تالے لگائے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت پاکستان اس طرح کام کرے گی تو لوگ پتھر ماریں گے، حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ادارہ غیر ضروری ہے تو پارلیمنٹ میں جائیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں مزید کہا کہ وزارت صحت کو اندازہ نہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں، جو وزارت کیماڑی گیس سے ہلاکتوں کا اندازہ نہیں لگا سکی کیا وہ کورونا سے لڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں:آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی تحلیل کرنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج

انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومتی امور کسی طریقہ کار کے تحت چلائیں، اس طریقہ کار سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارے کے ساتھ حکومت یہ کرے گی تو ملک تباہ ہوجائے گا، کیا وفاقی حکومت کو سمجھانے والا کوئی نہیں؟

اپنے ریمارکس میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ رویہ ہے جس سے ادارے تباہ ہوتے ہیں، حکومتیں ایسی نہیں چلتی کام کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ وزارت صحت عمارت سیل کرنے کی کیا وجہ بتا سکتی ہے؟ ایک سرکاری ملازم کو گھر بھیجنا مشکل ہے آپ نے ادارہ گھر بھیج دیا۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کل کو حکومت کو جج اور وکیل پسند نہیں آئیں گے تو کیا انہیں گھر بھیج دیں گے؟ کیا ملازمین کو کہیں کہ وہ تالے توڑ کر پی ایم ڈی سی بیٹھ جائیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کی کوئی حیثیت نہیں پارلیمنٹ نے اپنا کام کرنا ہے، سیکریٹری صحت کو کہیں اپنی عقل استعمال کریں کسی کے کہنے پر نہ چلیں۔

انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے جیسا نوٹی فکیشن لکھا ایسا تو پٹواری بھی نہیں کرتے، ہر ادارے کے باہر ایسے نوٹی فکیشن لگا دیں پھر پورٹل پر لوگوں کی شکایات موصول کریں، پھر لوگوں کو بتانا شروع کردیں کہ پورٹل پر اتنی شکایتیں حل کردیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملازمین بحال ہوچکے ہیں ان سے کام کروائیں، جس سیکریٹری نے سلطان راہی کے روپ میں تالا لگایا انہوں نے درست نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس نافذ، پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا گیا

اپنے ریمارکس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پی ایم ڈی سے متعلق آرڈیننس عدالتی فیصلے کے بعد ختم ہوچکا، ملازمین کے حقوق محفوظ ہیں، عمارت جب تک سیل رہے گی بدنامی کا باعث بنے گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملازمین زبردستی عمارت میں داخل نہ ہوں بس یوں سمجھ لیں کہ ابھی حکومت پاکستان کو کام کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد انتظامیہ سے توقع ہے وہ کسی غیر قانونی حکومتی حکم پر عمل نہیں کرے گی۔

بعدازاں عدالت نے سیکریٹری صحت سمیت فریقین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور عمارت کو تالا لگانے والے افسران سے 25 مارچ کو جواب طلب کردیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے قیام اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کرنے کا صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار دے کر پی ایم ڈی سی ملازمین کو بحال کیا تھا۔

یاد رہے کہ 20 اکتوبر کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا تھا جس کے نتیجے میں پی ایم سی کے نام سے نئے ادارے کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔

بعدازاں 28 اکتوبر کو پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کونسل کو تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

سنگل بینچ کا تحریری فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی بحالی کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا تحریر کردہ فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے جس میں پی ایم ڈی سی کی بحالی اور پی ایم سی آرڈی نینس کالعدم قرار دینے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈی نینس 20 اکتوبر 2019کو جاری کیا گیا اور آرڈی نینس کے تحت کونسل اراکین کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم کو صوابدیدی اختیارات دیے گئے۔

ایک رکنی بینچ کے تحریری فیصلے کے مطابق آسامی مشتہر کر کے تمام پروفیشنلز کو درخواست دینے کا موقع فراہم کیے بغیر کونسل کے اراکین کو تعینات کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر کی تعیناتی مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتی ہے جبکہ وزیراعظم مسابقتی عمل کے ذریعے میرٹ کے مطابق تعیناتیاں کرنے کے پابند ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مینڈیٹ کا احترام کرے، فہد ملک کیس کی روشنی میں پی ایم سی آرڈیننس بلاشبہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے اور یہ طے شدہ قانون ہے کہ آئین سے متصادم قانون سازی کالعدم تصور ہو گی۔

فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی کے 11 فروری کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جس میں پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

حکومت نے اپیل میں موقف اپنایا ہے کہ عدالت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے انتظامی معاملے میں مداخلت کی اور یہ فیصلہ اختیارات کے بنیادی آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔

فیصلے کے خلاف اپیل میں کہا گیا ہے کہ سنگل بنچ کا فیصلہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے جو سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں کے خلاف ہے۔

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیکل آرڈیننس 2019 پی ایم ڈی سی آرڈیننس سے مکمل طور پر مختلف نہیں ہے جبکہ حکومت نے آئینی حدود میں رہتے ہوئے نااہل اور کرپشن زدہ ادارے کی تشکیل نو کی ہے۔

حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ سنگل بینچ کے فیصلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اس لیے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

پی ایم سی آرڈیننس کا نفاذ

خیال رہے کہ صدر عارف علوی نے 20 اکتوبر کو پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کردیا تھا۔

اس بارے میں وزارت برائے قومی صحت سروسز سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے ’پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019‘ نافذ کیا ہے جس کے نتیجے میں میڈیکل کے شعبے کے قوانین اور کنٹرول کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نئے آرڈیننس کے تحت میڈیکل کی تعلیم، تربیت اور طب و دندان سازی میں قابلیت کے اعتراف کے لیے یکساں معیار قائم کیا جائے‘۔

بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’پی ایم سی ایک کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ، نیشنل میڈیکل اتھارٹی پر مشتمل ہوگا، نیشنل میڈیکل اتھارٹی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: 7 نومبر کو نافذ کیے گئے آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

حکومت نے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس کی منظوری کے تناظر میں پاکستان کے تمام میڈیکل اور ڈینٹل ڈاکٹروں کی لائسنسنگ اور رجسٹریشن سے متعلق انتہائی اہم ریکارڈز اور میڈیکل اور ڈینٹل اداروں کی حفاظت کے لیے فوری ایکشن لیا تھا۔

جس کے بعد وزارت برائے قومی صحت (این ایچ ایس) نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے پاکستان میڈیکل کونسل کی عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور کونسل کے 220 ملازمین کو ہدایت کی تھی کہ دفتر ایک ہفتے کے لیے بند رہے گا۔

علاوہ ازیں پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے نفاذ سے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو غیرمعمولی اختیار تفویض ہوگئے تھے، جس کے تحت وہ اپنی مرضی سے فیس کا تعین کرسکتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں